ایک زرعی ملک میں کسانوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کا ادراک کرنا کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ وطن عزیز میں وسعت کے لحاظ سے بلوچستان سرفہرست ہے اور اس صوبے میں زراعت کے حوالے سے اگر موثر اقدامات اٹھائے جائیں تو یہ ملک کی زرعی ضروریات کو پورا کرنے سکتا ہے۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اس وسیع زمین کی آب پاشی کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اس وقت بھی بلوچستان میں کسانوں کو کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔جس میں آب پاشی کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ بلوچستان سے اطلاعات ہیں کہ وہاں کسانوں کی تحریک ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئی ہے جہاں پٹ فیڈر کینال سے پانی کی مصنوعی قلت اور چوری کے خلاف نیشنل پارٹی کی کال پر آل پارٹیز الائنس اور کسانوں نے احتجاج کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پٹ فیڈر کے پورے علاقے کے کسانوں کوملنے والا پانی بند کر دیا گیا ہے اور وہاں کے کسان سندھ پر بھی الزام لگارہے ہیں کہ وہ اِن کے حصے کا پانی چوری کر رہا ہے۔ پٹ فیڈر نہر (کینال) سے نصیر آباد ڈویژن کے تین اضلاع کو پانی ملتا ہے۔ جن میں جعفرآباد‘ نصیر آباد اور صحبت پور شامل ہیں۔ پٹ فیڈر کینال بنائی گئی تھی تو وہ صرف اندرون علاقوں کیلئے بنائی گئی تھی لیکن بااثر زمینداروں نے پانی بیرونی علاقوں میں فراہم کیا‘ جن میں جھل مگسی وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔ یہ بلوچستان کا واحد ڈویژن ہے جو دریائے سندھ کے نہری نظام سے جڑا ہوا ہے۔ پٹ فیڈر کینال گڈو بیراج سے نکلتی ہے اور نصیرآباد کے 80فیصد زرعی رقبے کو سیراب کرتی ہے۔ کیرتھر کینال سکھر بیراج سے نکلتی ہے اور جعفر آباد کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے لیکن اس کینال کا پانی بھی دیگر علاقوں میں لے جایا جارہا ہے۔ ان دونوں نہروں کے درمیان ربیع کینال بھی بہتی ہے جو سیزنل ہے۔تینوں نہروں کے پانی کی مجموعی رسائی قریب 10لاکھ ایکڑہے۔ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں گڈو بیراج سے مذکورہ پٹ فیڈر نہر نکالی گئی تاہم یہاں سے پانی کی منصفانہ تقسیم کے سلسلے میں کسانو ں کے مطالبات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے اور کئی مرتبہ احتجاج تک بات پہنچی۔ اِس کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں زرعی اصلاحات کی گئیں۔ اِن اصلاحات سے کسی حد تک نصیر آباد ڈویژن کو فائدہ ہوا کیونکہ قبل ازیں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے کسانوں کے حق میں احتجاجی کیمپ لگایا اور اُن کے مطالبات کی حمایت کی تھی۔ اِس جدوجہد کی وجہ سے مستحق کسانوں کو اپنی ہی زمینیں الاٹ ہوئیں۔تاہم بعد ازاں اس عمل میں بھی کئی رکاوٹیں سامنے آئیں اور آج بھی اس علاقے کے کسانوں کے مسائل اسی طرح موجود ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، کسانوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کو جلد از جلد حل کرنا ضروری ہے تاکہ نئے دور کے تقاضوں کے مطابق زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے اور فی ایکڑ پیدوار میں اضافہ ہو۔ تاہم یہ سب اس وقت ہی ممکن ہے کہ یہاں پر کسانوں کی مشاورت سے ان کے مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ پروان چڑھے۔ یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت نے کئی مراحل پر کسانوں کے ساتھ روابط کو مضبوط کرنے پر کام کیا ہے اور خود وزیر اعظم عمران خان کے کسانوں کے ساتھ کئی اجلاس ہوئے ہیں جس میں دور رس اہمیت کے حامل فیصلے کئے گئے ہیں تاہم ضرورت اس ا مر کی ہے کہ ان فیصلوں کو جلد ازجلد عملی صورت دی جائے اورکسانوں کے مسائل کے حل کیلئے جو منصوبے بنائے گئے ہیں ان کو عملی صورت دی جائے۔