فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکا نے 20 برسوں کے دوران ایک جدید افغان فوج کھڑی کرنے کے لیے 83 ارب ڈالر خرچ کیے جو پاکستانی کھربوں روپے سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق امریکا نے افغان فوج کو جنگی جہاز، ہیلی کاپٹرز، ڈرون طیارے، بکتربند گاڑیاں، اندھیرے میں دیکھنے والے گوگلز سب کچھ دیا، آخری دنوں میں امریکا نے افغان فوج کو جدید ترین بلیک ہاک ہیلی کاپٹر تک دیے، مگر وقت آنے پر افغان فوج طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔
بحالی سے متعلق امریکا کے اسپیشل انسپکٹر جنرل جون سوپکو کے مطابق افغان فوج کی صلاحیتوں کے بارے میں غلط اندازے لگائے گئے۔
انھوں نے کانگریس کو پچھلے ہفتے ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا کہ افغان فوجیوں میں مغرب کے جدید ترین فوجی آلات استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، امریکا میں افغان فوج کی تعداد 3 لاکھ اور طالبان جنگجوؤں کی تعداد 70 ہزار بتائی جاتی رہی جبکہ ان میں سے ایک لاکھ 85 ہزار ہی فوجی تھے اور باقی پولیس اہلکار تھے۔
جون سوپکو نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ ان ایک لاکھ 85 ہزار افغان فوجیوں میں سے بھی صرف 60 فیصد ہی تربیت یافتہ تھے، پھر ہر سال افغان فوج کی 25 فیصد تعداد فوج چھوڑ دیتی تھی اور اس کی جگہ دوسرے اہلکار بھرتی کرنا پڑتے تھے۔
اس کے علاوہ افغان فوج کی تنخواہیں دینا بھی امریکا کی ذمہ داری تھی لیکن اپریل میں امریکا نے جب انخلا کا اعلان کیا تو یہ ذمہ داری کابل حکومت کو دے دی، اس کے بعد افغان فوجی سوشل میڈیا پر شکایتوں کے انبار لگاتے نظر آئے کہ انھیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی بلکہ کئی فوجی یونٹوں کو تو کھانا اور اسلحہ و بارود بھی نہیں ملا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ افغان فورسز کی طاقت اور صلاحیتوں کا درست اندازہ نہیں لگا سکا۔ گذشتہ 20 برس انہیں تربیت دی اور اسلحے سے لیس کیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ افغان فورسز کی ناکامی ان کی توقعات سے کہیں زیادہ تیزی سے ہوئی۔ امریکی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکی سفارت خانے کا تمام عملہ کابل کے سفارت خانے سے نکال لیا گیا ہے۔