قومی مفاد۔۔۔

افغانستان میں صورتحال ناقابل یقین حد تک اور نہایت ہی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ افغانستان پر حکمرانی کے لئے آنے والے اب وہاں سے فرار ہورہے ہیں۔ شمالی اتحاد بھی ایک حقیقت تھی اس کا بھی اب وجود نظر نہیں آتا۔ اشرف غنی کے ہمراہ وزراء بھی راہ فرار اختیار کرگئے ہیں۔ رشید دوستم سے کچھ حلقوں کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح طالبان کیلئے سخت حریف ثابت ہوں گے لیکن اب اس کے اعصاب بھی جواب دے گئے ہیں اور اس نے بھی افغانستان سے بھاگنے میں عافیت جانی ہے۔ افغان ذرائع ابلاغ کی جانب سے دی گئیں اطلاعات کے مطابق طالبان کو اقتدار منتقل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور کابل کے صدارتی محل میں طالبان کے ساتھ معاملات طے پارہے ہیں۔ عبداللہ عبداللہ ثالث کے فرائض ادا کررہے ہیں۔ امریکہ کی طرف سے طالبان سے پہلے ہی کابل میں موجود اپنے سفارت کاروں کے تحفظ کی اپیل کی گئی ہے۔ امریکہ کی طرف سے اپنے عملے کو کابل سے نکالنے کیلئے بڑا آپریشن تشکیل دیا ہے۔ سفارت کاروں کو حساس دستاویزات اور آلات جلانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس میں شاید اب تاخیر ہوگئی ہے۔ امریکی اب طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکیوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔اپنا وجود کھوتی ہوئی افغان حکومت اور طالبان کے مابین معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت طالبان کابل پر حملہ نہیں کریں گے۔ ان خبروں کی تصدیق قائم مقام افغان وزیر داخلہ عبدالستار مرزکوال کی طرف سے کی گئی ہے۔امریکہ کی طرف سے افغان فوج کی تربیت اور جدید اسلحہ کی فراہمی پر ایک سو ارب ڈالر سے زائد خرچ کئے گئے۔ تین لاکھ نیشنل گارڈز کیل کانٹے سے لیس کئے گئے جو اب کہیں نظر نہیں آتے۔ جنہوں نے جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرنا تھا وہ گرم ہوا کی تپش دیکھ کر ملک سے ہی فرار ہوگئے بہت سے طالبان کے ساتھ مل گئے۔ طالبان کے مقبوضات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان کی کابل کی طرف پیش قدمی جاری تھی۔ پل چرخی جیل پر طالبان نے تسلط حاصل کرلیا ہے۔ اس جیل میں ہزاروں کی تعداد میں وہ قیدی ہیں جن کو اشرف غنی انتظامیہ نے رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ پل چرخی جیل پر قبضے کا مطلب کابل میں طالبان کی عملداری کی ابتدأ ہے۔کل تک افغانستان میں خانہ جنگی ہورہی تھی اور اس کے اختتام کی کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اشرف غنی حکومت طالبان کے خلاف فضائی حملے جاری رکھے ہوئے تھی‘ یہی ایک اس کا ہتھیار تھا جس کا طالبان کے پاس توڑ نہیں تھا۔ افغانستان میں غنی انتظامیہ کے ہاتھ سے بہت کچھ نکلا تو اس کی فضائیہ بھی بکھر گئی جس سے طالبان کی کامیابی کے راستے مزید استوار ہوگئے طالبان پہلے بھی اقتدار میں آئے تھے اس وقت یہ سیاست سمیت کئی معاملات میں ناتجربہ کار تھے۔اب ان کے پاس پانچ سالہ اقتدار میں رہنے کا تجربہ ہے چین اور روس سمیت کئی ممالک نے اپنے سفارتی عملے کو کابل میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین سے طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ چین ایسا کرتا ہے تو بہت سے دیگر ممالک بھی اس کی تقلید کریں گے۔ طالبان طاقت کے بل بوتے پر کابل کو تسخیر کرتے تو خونریزی کے خدشات بڑھ جاتے۔ اب ان کو اقتدارایک معاہدے کے تحت منتقل ہورہا ہے جس سے خانہ جنگی کے بڑھتے خطرات بھی کم ہوگئے ہیں۔ طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ وہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر کاربند رہنے کا بھی اعلان کرچکے ہیں۔