افغانستان کی تیزی سے تبدیل اور غیریقینی سے بھرپور صورتحال سے متعلق تاثرات‘ تجزئیات‘ اطلاعات‘ دعوؤں اور اندیشوں میں تمیز کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ سچائی تک رسائی ناممکن حد تک دشوار دکھائی دیتی ہے کیونکہ ابھی بہت سارے سوالات کے جوابات تلاش کرنا ہیں کیونکہ تاریخ کبھی بھی صرف رونما واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اِس میں واقعات کے درپردہ محرکات اور اِن محرکات کے پیچھے چھپی سوچ تک بذریعہ سوال و جواب پہنچا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ طالبان کی حالیہ فتح نے امریکہ کی افغانستان اور بالخصوص خطے میں ناکام پالیسیوں پر کئی سوالات اْٹھائے ہیں۔ عالمی طاقت ہونے کے زعم میں امریکہ کی اِن ناکام پالیسیوں سے انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں لیکن اگر خطے کے دو ممالک (چین اور پاکستان) مربوط کوششیں کریں تو اِس سے ایک نیا افغانستان اُبھر کر سامنے آئے گا جو نہ صرف چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی کامیابی بلکہ چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کی کامیابی کا بھی ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ایک نئی چال چلی ہے جس میں چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی بڑی منصوبہ بندی کے طور پرطالبان کو استعمال کیا جائے گا۔افغانستان کے نئے سیٹ اپ کا طریقہ کار کیا ہو گا؟ ’بدلے بدلے طالبان‘ انسانی حقوق کا کس قدر خیال رکھیں گے؟ خواتین اور اقلیتیں تحفظ پائیں گی؟ طالبات کیلئے تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں کے مواقع بحال رکھے جائیں گے؟دنیا کی نظریں افغانستان پر مرکوز ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کے رہنے والے طالبان سے وہ سب کچھ چاہتے ہیں جو ترقی پذیر ممالک کی اکثریت میں عوام کو میسر نہیں تاہم انسانی حقوق کی ادائیگی جیسا کہ خواتین کے حقوق اور بچیوں کی تعلیم کا وعدہ پورا کرنا‘ اقلیتیں اور لسانی گروہوں کے حقوق کی ادائیگی ممکن ہے اور یقینا طالبان اپنے وعدوں اور ارادوں کو پورا کریں گے‘ جس کے لئے ان پر حامی ممالک کی جانب سے بھی دباؤ ہے۔ طالبان کی اچانک ’فتوحات‘ نے عالمی نقشے پر قوتوں کے کردار کے ساتھ خطے کے ممالک کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ طالبان کا خطے میں اقتدار آنے والے دنوں میں جہاں عالمی طاقت کے توازن کا فیصلہ کرے گا وہیں پر طاقت کے ارتکاز کے رجحان کو بھی جنم دے گا۔ طالبان کے افغانستان میں آنے کے بعد جس طرح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اس سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ طالبان افغانستان کے کونے کونے میں موجود ہیں اور صرف کسی ایک شہر یا علاقے یا دارالحکومت کابل ہی میں انہوں نے فتح کے جھنڈے نہیں گاڑھے بلکہ وسطی افغانستان کی طرح دور دراز علاقوں میں بھی عمل داری قائم کی ہے تاہم اُن دور دراز اور دیہی علاقوں میں انفرادی طور پر قانون ہاتھ میں لینے کے جو واقعات سامنے آ رہے ہیں اُن پر طالبان کی قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کیونکہ طالبان کی قیادت و سیاست کا امتحان ختم نہیں بلکہ ابھی شروع ہوا ہے اور اِنہیں اپنی اہلیت و افغانستان سے محبت کا عملاً ثابت کرنا ہے جسے نئی آزمائش اور ایک نئی گیم کا آغاز طور پر دیکھا جانا چاہئے۔