میں نے کہا یہ تو پانچ سال کا ہونے لگا ہے۔آپ اس کوسکول میں کیوں داخل نہیں کرواتے۔ خاتون نے کہا بھائی جی بس خاموش ہو جائیں۔ سکول کا نام نہ ہی لیں تو اچھا ہے۔اِدھر سکول کا نام لیا وہاں کورنا کے وار تیز ہو گئے او رپھر لمبے عرصے کیلئے سکول بند ہوجائیں گے۔ اس لئے ہم بھی خاموش ہیں۔سب کہتے ہیں کہ اس کو سکول میں داخل کرواؤ۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ اب کرواتے اور اب کرواتے ہیں۔مگر اس نیک کام کا ہمیں موقع ہی کب ملتا ہے۔حکومت کی طرف سے بھی کہا جاتا ہے کہ سکول کی گھنٹی آپ کا انتظار کررہی ہے۔مگر جب بھی سوچا کہ کل اس کو داخل کریں گے تو رات کو خبروں میں سنتے ہیں کہ اب سکول پھر سے بند کردیئے گئے ہیں۔اب کریں تو کیا کریں۔ گھر میں رہ رہ کر بچہ لوگ پڑھائی میں سست اور شرارتوں میں شوخ ہو چکے ہیں۔میں حیران ہوں اگر سکول میں داخل کردیا تو اول اول اس کو بہت مشکل درپیش آئے گی۔ اس نئے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا۔ پھر اس سے زیادہ تو مشکلات ہم ماں باپ کو بھگتنا ہوں گی۔ روئے گا کرلائے گا سکول نہیں جائے گا۔ مگر یہ زور زبردستی کا تو کام ہے نہیں۔ اب اس کے بابا بھی کالج ٹیچر ہیں مگر اس بچے کی قسمت میں تاحال سکول میں داخلہ نہیں لکھا ہوا۔ محترمہ کی باتوں پر تو میری آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں نے کہا تو آپ کسی قریب کی گلی محلے میں اس کو کسی مدرسے میں داخل کروا دیں۔ خاتون نے جواب میں سوال کیا تو کیا وہاں کورونا نہیں ہوگا۔ وہاں تو سکول سے زیادہ رش ہوتا ہے۔بچیاں بچے یک زبان ہو کر سبق یاد کر رہے ہوتے ہیں۔میں سوچ میں پڑگیا۔ بات تو دماغ کو لگنے والی تھی۔ پھر لگی اور ایسی کہ جن جن گھروں میں بچے ہیں اور وہ کسی پرائیویٹ سکول میں داخل ہونا چاہتے ہیں وہ اس ڈر کے مارے کہ ہمارے بچے کو کورونا آن گھیرے گا بچے کو سکول میں داخلہ نہیں دلواتے۔پھر اگر داخلہ دلوا بھی دیں تو مفت کی فیسیں کیوں بھریں۔ کیونکہ ہفتہ بھر سکول جاؤ تو دو مہینوں کی مفت کی فیس بھرنا پڑتی ہے۔وہ دو ماہ جب بچہ کورونا کی وجہ سے سکول ہی نہیں گیا کہ سکول کے دروازے ہر خاص وعام کیلئے بند کردئیے گئے ہوں۔پھر پرائیویٹ والے تو فیس میں رعایت بھی نہیں کرتے۔ میں نے سوچا اور مجھے اندازہ ہوا کہ سکول کالج او ریونیورسٹی کامعاملہ اس وقت پورے ملک میں کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔اجتماع جہاں بھی ہو وہاں عوام کے اکھٹے ہونے پرنئی پابندیاں لگ رہی ہیں۔کیونکہ کورونا کے وار کم نہیں ہوئے۔ بلکہ ان میں آئے دن تیزی کی رپورٹ مل رہی ہے۔ بہت سے ایسے مریض ہیں جو ہسپتال نہیں جاتے۔ اگر وہ مریض بھی ریکارڈ میں آ جائیں تو پورے ملک کی آبادی کو تیسری بار لاک ڈاؤن میں قید کرنا ہوگا۔پھر جو بڑے لڑکے لڑکیاں ہیں وہ تو کبھی کھلنے اور کبھی بند ہو جانے والے تعلیمی اداروں میں جا تے آتے ہوئے عادی ہو چکے ہیں۔مگر جہاں تک سیکھنے سکھانے کی بات ہے وہ توکچھ بھی نہیں۔کالج جاتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ کلاس کے آدھے سٹوڈنٹس کو بلاؤ کبھی کیا کبھی کیا۔ اب خیر سے یکم ستمبر سے پھر تعلیم کے اداروں میں کلاسوں کا ڈول ڈالا جا رہاہے۔بی ایس کی کلاسیں بھی شروع ہوں گی اور انٹر کی کلاسیں بھی اپنی پوری آب و تاب میں ہوں گی۔دیکھئے کیاہوتا ہے۔اگر پھر سے وزیر تعلیم ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہو کرسکول کالج بند کر گئے تو جو پہلے کی تباہ حال پڑھائی لکھائی ہے وہ برباد نہ ہو جائے۔کیونکہ اب کورونا نے تو اپنے پنجے بھرپور گاڑ دیئے ہیں۔یہ وائرس جانے والا نہیں۔ جب تک کہ پوری آبادی کو جیسے تیسے ویکسین نہ لگ جائے۔پھر میڈیکل کے کرتا دھرتا کہتے ہیں کہ یہ تو ہر آدمی کو ہوگا۔ کبھی تو لندن کا وائرس یہاں پہنچ جاتا ہے جو زیادہ خطرناک ہے اور کبھی اس سے زیادہ ہمسایہ ملک کا کورونا ڈیلٹا وہاں ڈوب کر یہاں سر نکالتا ہے۔ایسے میں ماؤں کو اپنے بچوں کی سکول کی پریشانی ہوناتو عام سی بات ہے۔پھر گھرمیں بچے کون سا سکون سے بیٹھتے ہیں۔شورشرابا مارا ماری تو مجھے مار میں تجھے ایک کے پیچھے سب بھاگتے ہیں اور سب کے پیچھے ایک۔بس ناک میں دم ہونے لگا ہے۔ سکول جاتے ہیں تو ماں باپ کو بھی سکھ کاسانس نصیب ہوتا ہے۔وہ بھی ان کے گھر سے سکول کو نکلنے کے بعد اپنے کام کاج نپٹانے بازاروں اور عزیز رشتہ داروں کے گھر جا دھمکتے ہیں۔ خوب آرام سے دوچار گھنٹے گزار کر بچوں کی چھٹی سے پہلے گھر واپس پہنچ جاتے ہیں۔ہر تین دن کے بعد کی یہ تفریح بھی اگر معمول ہو تو بندہ زندگی میں بوریت محسوس نہیں کرتا۔