امریکہ کی جانب سے بیس سال قبل اقتدار سے ہٹانے کے بعد افغان طالبان دوبارہ افغانستان کی حکومت سنبھالنے جارہے ہیں۔ آئیے دیکھیں طالبان کیا کرسکتے ہیں، طالبان کا افغانستان کیسا ہوگا اور ان کے قبضے کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟ طالبان اس بار پہلے والے طالبان نہیں رہے۔ پچھلے بار آئے تھے تو وہ مخالفین کے ساتھ سخت گیری اور انتقام کیلئے مشہور ہوئے تھے۔ اس بار مگر وہ برداشت، معافی اور مخالفین کیساتھ باوقار رویہ دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے افغان افواج اور مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو بھی امان دی گئی ہے اور ان کی عزت کی جار ہی ہے۔ یہ اچھی پیش رفت ہے۔پہلے والے طالبان صرف پختون شناخت رکھتے تھے۔ اس بار انہوں نے تاجک، ازبک اور ہزارہ افراد کیلئے بھی تنظیم کے دروازے کھول دئیے ہیں اور انہیں عہدے دئیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی افغانستان میں ان کو ماضی کے برعکس زبردست فتوحات اور وہ بھی آسانی سے حاصل ہوئیں۔ طالبان ماضی میں صرف بزور طاقت علاقے قبضہ کرتے تھے اور مخالفین کو مارتے یا گرفتار کرتے تھے۔ اس بار وہ عمائدین کے ذریعے مذاکرات اور معاہدے کرواکے صوبوں کو فتح کرتے گئے۔ امریکہ نے بین الافغان معاہدے سے قبل انخلا کرکے اس امکان کو بڑھا دیا تھا کہ افغانستان میں پھر سوویت یونین کے انخلا کے بعد جیسی خانہ جنگی ہوگی۔ مگر شکر ہے کہ طالبان نے سمجھداری دکھائی اور عام معافی کا اعلان کردیا۔ طالبان ترجمان کے مطابق طالبان افغانستان میں کھلے دل سے، تمام فریقوں کی شراکت داری پر مشتمل اسلامی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ طالبان نے یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ تمام افغان شخصیات سے بات چیت کیلئے تیار ہیں اور انہیں ضروری تحفظ کی ضمانت فراہم کرینگے۔یہ سب قابل تحسین ہے۔طالبان ماضی کے برعکس بڑا ذمہ دارانہ رویہ دکھا رہے ہیں جو خوش آئند بات ہے۔ طالبان ترجمان کے مطابق ہم عورت کے حقوق پہ یقین رکھتے ہیں۔ انہیں تعلیم اور کام کرنے یا گھر سے اکیلی باہر جانیکی اجازت ہو گی۔ وہ بین الاقوامی تعاون، امن، معافی، رفاہی اداروں میں کام کرنیوالے اہلکاروں، صحافیوں، سفارت کاروں اور افغان رہنماؤں کی حفاظت کی یقین دہانیاں کروا رہے ہیں جو امید افزاء ہے۔ انہوں نے افغانستان کے کسی جمہوری ادارے یا اس کے دفتر کو نشانہ نہیں بنایا انہوں نے تمام شہریوں اور سفارتی مشنز کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ طالبان کو عوام کی حمایت حاصل ہے جبکہ افغان فوج کو نہیں اس وجہ سے وہ ان کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ ثابت ہوا امریکہ نے ان کی اور اپنی طاقت و صلاحیت کے بابت جو اندازے لگائے تھے وہ غلط اور غیر حقیقی تھے۔ افغانستان سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے۔ امریکہ نے اس کی تاریخ نظرانداز کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ امریکہ نے مذاکرات کے بجائے قالینی بمباری اور ظالم جنگجو سرداروں اور کمانڈروں کی حمایت کرکے اور بڑھتی ہوئی بدعنوانیوں سے انکھیں بند کرکے افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ پھر افغان حکومت کو شامل کیے بغیر طالبان سے مذاکرات اور معاہدہ کیا۔ پھر اپنی افواج نکالنے کا اعلان کردیا مگر طالبان سے جنگ بندی نہیں کروائی۔ امریکی رہنماؤں کی حد سے زیادہ خود اعتمادی، غیر مستقل مزاجی، غلط ترجیحات، حقائق سے ناواقفیت یا چشم پوشی لے ڈوبی۔ اگر امریکہ افغانستان پر حملے کو غلطی مانتا، افغانستان کی خودمختاری اور عوام کی حق حکومت سازی کا احترام کرتا، طالبان اور دیگر جنگجو گروہوں کے ساتھ آزاد ماحول میں مذاکرات کرتا، بین الافغان تصفیے کیلئے کوشش کرتا، افغانستان کے پڑوسیوں اور مقامی و بین الاقوامی طاقتوں کو افغان مسئلے کے حل کیلئے ساتھ لیتا پاکستان کے تحفظات کا خیال رکھتا، افغانستان کی بحالی و تعمیر نو کیلئے زیادہ وسائل مختص کرتا اور وہاں بدعنوانی اور طاقت کے استعمال پر جواب دہی کا بندوبست کرتا تو شاید امریکہ کو اتنی سبکی نہ اٹھانی پڑتی۔ ماضی کے برعکس طالبان کے سب پڑوسی ممالک جیسے ایران، ازبکستان، تاجکستاں، ایران اور چین کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ وہ ان کی سن رہے ہیں اور پاکستان سمیت سب پڑوسی ممالک بلکہ پوری دنیا کو افغانستان کی طرف سے ذمہ دارانہ اور پرامن طرزعمل کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔ طالبان نے یقین دلایا ہے وہ افغانستان میں کسی بھی گروہ کو دنیا کے کسی ملک کے خلاف دہشت گرد کاروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ بھی بہت خوش آئند ہے۔افغانستان کی طرف سے پاکستان پر سرحدی مداخلت کے مضحکہ خیز الزام کا خاتمہ ہوجائے گا مگر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک، جو افغانستان میں اپنے خواب چکناچور ہونے اور اپنی شکست پر غم و غصے کی حالت میں ہیں، کی طرف سے امکان ہے کہ الزامات کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ پاکستان کے ساتھ روس، چین اور ایران کی سوچ یکساں ہے اور امید ہے یہ چاروں ممالک مل کر افغانستان میں امن و ترقی کو یقینی بنائیں گے۔ بھارت کے افغانستان کو پاکستان کیخلاف استعال کرنے بارے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اب امکان ہے وہ جلد پاکستان سے مذاکرات کیلئے رابطہ کریگا۔طالبان بڑے پن کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کی عام معافی اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے اعلان کی وجہ سے افغانستان میں امن کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ افغانستان بہت تباہی دیکھ چکا۔ اب یہاں امن آجانا چاہئے۔ امید اور دعا ہے طالبان سب کو ساتھ لیکر چلیں اور اسی طرح تحمل، بڑاپن اور معافی دکھاتے رہیں۔ کیا اچھا ہو اگر جلد از جلد افغان عوام کو اپنی حکومت منتخب کرنے کا موقع مل جائے اور پوری دنیا افغانستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے۔ طاقت کے ذریعے حکومت کے حصول کی ہرگز حمایت نہیں کی جاسکتی تاہم افغانستان میں ایسا ہوتا رہا ہے جس کا اب خاتمہ ہونا چاہئے۔ دعا ہے افغانستان میں بھی عوام کی مرضی سے منتخب حکومتوں کے وجود میں آنے کاسلسلہ شروع ہو۔