محرم الحرام کے پہلے عشرے (یکم سے دس تاریخ تک) نذر و نیاز کا خصوصی اہتمام پشاور کی روایت اور ایام محرم کے دوران سوگواری کا حصہ ہے‘ جس میں موسم کے اعتبار سے کھانے پینے کی اشیا تیار کی جاتی ہیں اور صرف ایسا بھی نہیں کہ سینکڑوں ہزاروں افراد کیلئے کھانے پینے کا اہتمام کرنے کی مالی سکت رکھنے والے ’مخیر خواتین و حضرات‘ ہی پیش پیش نظر آتے ہیں بلکہ مسالک سے بالاتر اہل پشاور کی اکثریت کا معمول ہے کہ یہ عاشور کے دن عزیزواقارب کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے حاضری دینے کے علاؤہ اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر اشیائے خوردونوش ہمسائیوں میں تقسیم کرتے ہیں اور اِس نذر و نیاز کی تقسیم سے پیدا ہونے والی شکرگزاری کے باعث جہاں بھائی چارہ بڑھتا ہے وہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس حدیث مبارکہ کی عملاً تفسیر بھی ہوتی ہے کہ عاشور کے دن دسترخوان کو وسیع کیا کرو۔ (ترجمہ) ”جس نے عاشورا کے روز اپنے گھر میں رزق کی فراخی کی‘ اللہ تعالیٰ اُس پر سارا سال فراخی فرمائے گا (بحوالہ: معجم اوسط: جلد 6: صفحہ 432: حدیث نمبر 9302۔)“ اِس حدیث کی ذیل میں مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (اسلامی زندگی صفحہ 131) پر لکھا ہے کہ ”(اگر کوئی شخص مرد یا عورت اپنے) بال بچوں (اہل و عیال) کیلئے دسویں محرم (یوم عاشور) خوب اچھے اچھے کھانے پکائے تو ان شاء اللہ سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی۔ یوم عاشور کی فضیلت و برکات سے کسی کو انکار نہیں اور اِس موضوع پر طویل مضمون باندھا جا سکتا ہے جس کا خلاصہ یہی ہوگا کہ عاشور کے دن‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق ہر نیک کام کا ثواب زیادہ مقرر کر دیا ہے اور اِس دن کسی بھی نیکی اور کسی بھی قسم کے کم یا زیادہ‘ صدقہ و خیرات کے ثواب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ جب حدیث مبارکہ کے مطابق ”عاشور کے ایک دن روزہ رکھنے کا ثواب اِس قدر ہے کہ اِس عمل کی برکت سے پورے سال کے گناہ مٹ جاتے ہیں (بحوالہ صحیح مسلم حدیث نمبر 2746) تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یوم عاشور دوسروں کو کھانا کھلانے اور غمخواری کرنے کا اجر و مرتبہ کتنا بلند ہوگا۔ سورہئ مبارکہ دہر کی آٹھویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اور کھانا کھلاتے ہیں‘ اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر (قیدی) کو“ مطلب یہ ہے کہ جبکہ اُنہیں خود طعام کی خواہش (حاجت) ہوتی ہے لیکن وہ دوسروں کو کھانا کھلانے میں رب تعالیٰ کی رضا و خوشنودی تلاش کرتے ہیں اور اِس عمل کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔محرم الحرام کی خصوصیت بھی ہے اور عمومیت بھی کیونکہ پشاور میں کربلا والوں کی یاد اور تذکرہ سارا سال جاری رہتا ہے جس کے ساتھ نذر و نیاز (خیرات) بھی بٹتی رہتی ہے اور اِس عمل کے ذریعے ثواب کمانے کے روائتی انداز‘ طریقے اور کوششیں یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں درپردہ خلوص ِنیت کے باعث قبول و مقبول ہوں گی لیکن اگر اِن میں دنیاوی دکھاوے کی ملاوٹ نہ کی جائے یا غیردانستہ طور پر نہ ہو بلکہ اِنہیں خالصتاً اللہ تعالیٰ کی اطاعت‘ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کے جذبے اور شہدائے کربلا کی قربانیوں کو منفرد انداز میں خراج ِعقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی بخشش کا وسیلہ (عبادت) سمجھ کر ادا کیا جائے۔ کوئی بھی موسم ہو‘ اہل پشاور کے ہاں میٹھے سڑک کنارے اور گلی کوچوں میں لگے سٹالز کے علاؤہ درون خانہ (مساجد و امام بارگاہوں میں) مشروبات‘ چائے‘ ذائقے دار دودھ‘ میٹھے و نمکین چاول‘ حلیم‘ چپلی کباب‘ سیخ کباب‘ پنیر‘ کھیر‘ روغنی نان‘ پراٹھوں‘ باقرخانی‘ شیرمال‘ سرخ مٹھائی‘ روٹیوں‘ خشک میوہ جات اور پانی کے علاوہ فاسٹ فوڈ (برگر‘ چپس‘ پیزا وغیرہ) سے بھی شہدائے کربلا کی یاد میں منعقدہ محافل و مجالس کے شرکاء عقیدت مندوں کی مہمان نوازی (میزبانی) کی جاتی ہے جس کی تاریخ سو سال سے بھی زیادہ قدیم ہے چونکہ نویں اور دسویں محرم تمام دن اور تمام رات مجالس و محافل کا انعقاد اور ماتمی جلوس برآمد ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ بالخصوص یوم عاشور کے اختتام پر شام غریباں کے جلوس و محافل منعقد ہوتی ہیں‘ جن میں شریک تھکاوٹ اور عزاداری سے جسمانی طور پر نقاہت محسوس کرنے والے سوگورانِ اِمام عالی مقام کے لئے مرغن و غذائیت بھرے کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ اِن میں پشاور کے روائتی ذائقے (میوا چنا چاول‘ حلیم اور قہوہ و شیر چائے) کے علاؤہ خصوصی انتظامات و لوازمات بھی حسب ذوق تقسیم ہوتے ہیں۔