انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز(آئی آرایس) پشاور نے اس سال یوم آزادی کے موقع پر اپنی نوجوان نسل کو تحریک پاکستان اور خاص کر نظریہ پاکستان سے متعارف کرانے کے سلسلے میں دو قومی نظریئے کے عنوان سے ایک لیکچر کا اہتمام کیا جس سے پاکستان سٹڈی سنٹر یونیورسٹی آف پشاور کے ڈائریکٹر اور معروف ماہر تعلیم اورمحقق پروفیسر ڈاکٹر فخرا لاسلام نے خطاب کیا۔ واضح رہے کہ آئی آر ایس پشاورمیں 1980 کی دہائی سے قائم ایک تحقیقی ادارہ ہے جس کا مقصد اس خطے کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے درپیش چیلنجز کا معروضی اور تحقیقی انداز میں جائزہ لیکر تجاویز متعلقہ اداروں اور فورمزکے ساتھ شیئر کرناہے۔ دو قومی نظریئے پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام نے کہاکہ دوقومی نظریہ مذہبی قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ مغربی مفکرین کی مروجہ تعریف کے مطابق افراد کی ایک ایسی تعداد جو ایک خاص جغرافیائی وحدت کے اندر رہتی ہو اور جسکی مشترکہ زبان، ثقافت اور یکساں مفادات ہوں لوگوں کا ایسا مجموعہ اکائی قوم کہلاتی ہے۔اس جدید تعریف کے تحت تو ہندوستان کے سب لوگ ایک قوم تھے البتہ ان کے مذہبی معاملات میں چونکہ واضح اختلافات پائے جاتے تھے لہٰذا اسی بنیا دپر دوقومی نظریئے نے جنم لیا حالانکہ کانگریس اس تعریف کو بنیاد بنا کر ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے افراد کوایک قوم قرار دیتی تھی جسے بعض واقعات کے ظہور پذیر ہونے پر مسلمان راہنماؤں نے چیلنج کرنا شروع کیاجس کی ابتداء 1883 میں امپیرئیل کونسل کے ایک اجلاس میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخابات کا طریقہ متعارف کرانے کے مطالبے کی شکل میں کیا۔ 12 جنوری 1883 کو اس کونسل میں ایک قانون سامنے آیا جس پر سر سید احمد خان نے اعتراض کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کسی ممبر کو منتخب ہونے کیلئے رائے دہندہ گان میں جدا گانہ انتخا ب کا نظام متعارف کرانا چاہئے کیونکہ اگر آپ مشترکہ نظام متعارف کرائینگے تو اسکے نتیجے میں ہندوغالب رہیں گے اور مسلمانوں کو کبھی بھی اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع نہیں مل سکے گااسی نقطہ نظر کی بنیا دپر سرسید احمد خان کودو قومی نظریئے کا بانی کہاجاتاہے۔ 1930 میں سرسیّد کے دو قومی نظریے کی مزید وضاحت علامہ محمد اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کو بطور ایک الگ قوم پیش کرنے کی صورت میں کی۔ علامہ اقبال کی یہ تقریر تاریخ میں خطبہ الہ آباد کے نام سے محفوظ ہے‘ اس خطبے میں علامہ اقبال نے بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے ان کی اکثریت کی بنیاد پر ہندوستان کے شمال مغربی حصوں پرمشتمل ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ قیام پاکستان کیلئے چلائی گئی تحریک پاکستان کے پیچھے اصل محرک نظریہ پاکستان اور بر صغیر پاک وہندمیں اسلام اور مسلمانوں کی بالا دستی کا تصور تھا اسی خوف کہ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمان ہندوؤں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے اور اسکے نتیجے میں انکی آزادی ہمیشہ کیلئے سلب ہوجائے گی نے مسلمانوں کو اقبال اور جناح کی قیادت میں نظریہ پاکستان کے ساتھ جڑنے کا راستہ دکھایا۔