اس کھانے کا کیا مزا جس کے آ خر میں میٹھا شامل نہ ہو۔ فیرنی نہ ہو حلوہ نہ ہو پھر فروٹ میں پھلوں کا بادشاہ آم نہ ہوں۔مٹھائی ہی کیوں نہ ہو یا کھیر ہو۔مگر ہو سہی کچھ نہ کچھ شیرینی ہونی چاہئے۔ہمارے احباب ہیں جو ہماری ہی طرح ہیں۔ کچھ تو کھانے سے پہلے ہی میٹھے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔پھر کچھ تو بوفا والے کھانے میں پلیٹ اٹھا کر اپنی پلیٹ میں تمام کھانوں کا جو ہال میں دستیاب ہوں ایک پہاڑ سا بنا دیتے ہیں۔جیسے کوہِ ہمالیہ کی چوٹی پر برف کی سفیدی نظر آتی ہے۔ویسے ہی ا ن کی پلیٹ میں ٹھنسے ہوئے کھانوں کی اونچائی پر کھیر کی تہہ کا لیپ موجود ہو تا ہے۔کون ہے جو میٹھے سے بچ جائے۔ خواہ اسے شوگر ہو یا نہ ہو۔مگر کھانے کے آخر میں شادی ہالو ں میں اگر اوپر فیرنی یامربہ نہ ڈالاجائے تو پھر کیا مزا۔ویسے میٹھا کھانے کا شوگر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ہوگا جنھیں یہ مرض تو نہ کھائیں۔ مگر کھانے والے بہت سے دیکھے ہیں۔وہ جو اس بیماری کے گرفتارہیں۔نئے ہیں یا پرانے اس میں کوئی فرق نہیں۔میٹھا کھاتے ہیں اور دبا کر کھاتے ہیں۔ساتھ انسولین کے انجکشن لے کر گھومتے ہیں۔انسولین بھی بھرپور لگاتے ہیں۔پھر وہ بھی ہیں جو اس مرض میں گولیوں پر وقت گذاری کرتے ہیں۔مگر میٹھا سامنے آئے۔پھر خاص طور پر کھانے کے بعد شیرینی کے رنگا رنگ نظارے ہوں تو بڑے بڑے دل گردے والے اس محاذ پر ہمت ہار دیتے ہیں۔پھر وہ حلوہ ہو یا کوئی اور میٹھی ڈش ہو اس پریوں گرتے ہیں جیسے میدانِ جنگ میں لاشوں پہ لاشیں گری جاتی ہوں۔ہم نے تو میٹھا اپنے اوپر بند نہیں کیا ہوا۔ یہ تو ڈاکٹر صاحب کی کارپردازی ہے۔ مگر ان صاحبان کے مریض خاص طور پر پرہیز کے معاملے میں ان کی کم ہی سنتے ہیں۔ان کا کہنا ہوا میں یوں اڑا دیتے ہیں۔ جیسے ہاتھ میں تھاما ہوا کبوتر جان بوجھ کر اڑا دیا جائے۔ بہت پرہیز کرنے والے بھی دیکھے ہیں اور بہت مریض بھی کہ شوگرکے ہوتے سوتے اور دواؤں کے استعمال کے باوجود شیرینی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جن کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ شوگر کے مریض ہیں ان کو بھی شادی ہالوں کے رش میں بوفا کھانے کے صرف میٹھے آئیٹم کی بارہ اقسام سے دل لبھاتے ہوئے ہم نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے دیکھا ہے۔جس کی وجہ سے ہمارا اپنے اوپر اعتمادزیادہ ہوا۔ جس کی تو کوئی مثال نہیں۔ اس وقت لگنے لگا کہ ہمارے اندر بُل فائٹنگ والا جگر لگا ہے۔دل کو ڈھارس ہوئی کہ انھیں اگر کچھ نہیں ہوگا تو ہمیں کیوں ہو۔ہم ان کی طرح تو بدپرہیزی میں حد سے پھلانگنے والے نہیں۔ بس یہی بیاہ شادی میں میٹھا تھوڑا سا پلیٹ بھر چکھ لیا تو کیا ہوا۔ یہ ڈاکٹر کے فرمان سے بغاوت کیوں شمار ہو۔ویسے بات کسی کو بتلانے کی نہیں کہ ہم نے ان معالجین کو بھی دیکھاجو شوگر کے چنگل میں گرفتار ہیں مگر ان رش کے مواقع پر وہ اس بھیڑ بھاڑ میں چھپ کر کہیں میٹھا تناول فرما رہے ہوتے ہیں۔ایک بہت پیارے دوست سے مدت بعد ملاقات ہوئی۔ شوگر تو تھا اور انسولین بھی لگاتے تھے۔ مگر اب کے وہ انسولین کیلئے برف کی ڈلیاں ایک تھرماس میں رکھ کر گھوم رہے تھے۔ ان سے اس مرض کے بارے میں تفصیل سے بات چیت ہوئی اور انھوں نے ہمیں اور حاضرین ِ محفل کو اس حوالے سے بچاؤ کی بہت سی ٹپس دیں۔ مگر میرے کارستانی والے ذہن میں سوال ابھرا جو میں نے فوراً تاش کے پتے کی طرح ٹیبل پر رکھ دیا۔ پوچھا میٹھے سے کتنا پرہیز ہے۔کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم جو پرہیز نہیں کرتے تو دوست بھی کیوں کریں گے۔انھوں نے کھٹ سے جواب دیا۔اجی میٹھا کھاتا ہو ں او ر جی بھر کے کھاتا ہوں۔میٹھا تو میری کمزوری ہے۔آم بہت زیادہ مرغوب ہیں۔مجھے اس وقت حالی کا شعر یاد آیا”بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“۔سوچا چلو ہم اس حمام میں اکیلے نہیں ہیں۔دیگر ساتھیوں کا ساتھ بھی ہے۔سو اپنے آپ کو اکیلا اور ایک نہیں سمجھنا چاہئے۔ پھر ایک خاتون کو دیکھا کہ بہن کو شوگر کے کارن پرہیز پر طویل لیکچر دے رہی تھی۔ پھر اس کو اپنے شوگر کے بار ے میں پرہیز کے تجربات شیئر کر رہی تھی۔ میں اس کی پرہیز کی روش سے بہت متاثرہوا۔مگر جب چائے پینے کا موقع آیا تو دیکھاکہ اس نے اپنے کپ میں فل سائز کے دو چمچ ڈالے۔میری تو اندر اندر چیخیں نکل گئیں۔ مروت کی وجہ سے کچھ نہ کہہ سکا۔کیونکہ میٹھی گولیاں بھی تو اس کا علاج ہے کہ میٹھا زبان کو لگے مگر اندر جاکر جسم کولگ نہ سکے۔ہم تو چائے کی کرواہٹ کو محسوس کر نے کیلئے جان کر بھی چینی نہیں ڈالتے۔کیونک جب لب و دہن پھیکی چائے کے عادی ہو جائیں تو بعد ازاں چینی کاایک دانہ بھی اپنے کپ میں ڈونگے والا چینی کا ڈالا ہوا چمچ محسوس ہوتا ہے۔