آخری معرکہ۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر عمل داری قائم کرنے کے بعد افغان طالبان کیلئے مزاحمت کا آخری گڑھ کابل کے شمال میں ’پنج شیر‘ کی وادی ہے جہاں طالبان مخالف جنگجو کسی بڑے مقابلہ کیلئے پہلے ہی سے مورچہ زن ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں شامل پنج شیر صوبہ 7 اضلاع اور 512 دیہات پر مشتمل ہے۔ اِس علاقے کو 2004ء میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا جو جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہم ہے۔ اِس کے اطراف میں بغلان‘ تخار‘ بدخشاں‘ نورستان‘ لغمان‘ کپیسا‘ اور پروان کے علاقے ہیں۔ سال 2021ء میں جاری کردہ آبادی کے اعدادوشمار کے مطابق پنج شیر صوبہ کی آبادی 1 لاکھ 73ہزار کے قریب ہے۔ پنج شیر صوبے کا صدر مقام بازراک ہے اور یہ واحد ایسا صوبہ ہے جس پر تاحال طالبان کنٹرول حاصل نہیں کر سکے ہیں اور ہندوکش کی بلند چوٹیوں میں گھری ہوئی پنج شیر وادی طویل عرصے سے مزاحمت کے مرکز کے طور پر جانی جاتی ہے۔ سال 2001ء میں اپنی موت تک احمد شاہ مسعود نے سوویت افغان جنگ اور طالبان کے ساتھ خانہ جنگی کے دوران اس کا کامیابی سے دفاع کیا تھا۔ یہ ملک کا واحد حصہ ہے جس کی طالبان کے کنٹرول سے باہر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ ملک کے باقی حصوں پر طالبان تیزی سے قبضہ کر چکے ہیں۔ کابل سے قریب تین گھنٹے کی مسافت پر پنج شیر طالبان کے خلاف مزاحمت گاہ ہے۔ اُنیس سو چھیانوے سے دوہزارایک تک طالبان کے دور میں بھی یہ صوبہ اُن کے کنٹرول میں نہیں رہا تھا۔ وہاں شمالی اتحاد (ناردرن الائنس) نے طالبان کا مقابلہ کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود کو گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے القاعدہ کے دو خودکش حملہ آوروں نے ہلاک کیا تھا۔ ابھی تک ہر سال شمالی اتحاد اور احمد شاہ مسعود کے ماننے والے اُن کی برسی پر پورے کابل شہر کو بند کرتے رہے ہیں۔ ملک کے نائب صدر امراللہ صالح‘ جن کا پچھلی دو دہائیوں کے دوران مغربی حمایت یافتہ حکومتوں کی جوڑ توڑ میں اہم کردار تھا اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود دونوں نے اس علاقے میں پناہ لی ہے اور طالبان کے خلاف بغاوت کی اپیل کی ہے۔ کابل میں ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پندرہ اگست افغان طالبان ترجمان نے اپنی پہلی آن سکرین پریس کانفرنس میں عام معافی‘ خواتین کے حقوق اور نئی حکومت سازی پر بات کی تھی لیکن مذکورہ پریس کانفرنس سے کچھ ہی دیر قبل افغان صدر اشرف غنی کے نائب امراللہ صالح نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان کے آئین کے مطابق صدر کی غیر موجودگی‘ استعفے یا موت کی صورت میں نائب صدر ملک کا نگراں صدر بن جاتا ہے۔ احمد مسعود نے امریکہ کے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ”میں آج وادی پنجشیر سے یہ تحریر کر رہا ہوں۔ اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کیلئے تیار ہوں‘ مجاہدین جنگجو ایک بار پھر طالبان کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔“ انہوں نے فرانسیسی جریدے کیلئے لکھے گئے مضمون میں بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان کے خلاف ’جنگ لڑنے کا اعلان‘ کیا تھا۔ طالبان چاروں طرف سے پنج شیر کو گھیرے ہوئے ہیں اور ایسی صورت میں بنا لڑائی بھی کوئی گروہ چند مہینے ہی مزاحمت کر سکتا ہے۔ احمد مسعود نے برسوں برطانیہ اور ایران میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ وہ آج بھی اپنے والد کے نام کے سائے میں رہتے ہیں اور ان کا سیاسی اثرو رسوخ زیادہ نہیں۔ اشرف غنی کے ملک چھوڑ جانے کے بعد خود کو صدر قرار دینے والے امر اللہ صالح برسوں افغانستان میں برسراقتدار رہے ہیں اور ملک کی سیاست میں کافی متحرک رہے ہیں۔ احمد مسعود کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں اور انہیں ماسوائے پنج شیر کے افغانستان میں مضبوط حمایت حاصل نہیں۔ ممتاز سیاسی شخصیات اور وسیع تر سیاسی منظر نامے میں جو لوگ ممکنہ طور پر طالبان کی حکمرانی کی مخالفت کریں گے ان میں ایک اہم موضوع بحث یہ ہے کہ آیا طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے یا ’ایک حقیقی مسلح مزاحمت‘ شروع کی جائے۔ احمد مسعود نے مارچ میں پیرس کا دورہ کیا تھا اور اپنے والد کے نام سے ایک گزرگاہ کے افتتاح میں شرکت کیلئے سفر کے دوران صدر ایمانوئل میخوان سے ملاقات بھی کی تھی اُور ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی گروہ طاقت کے ذریعے اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے تو ”ہم اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ہم ان کے خلاف اسی طرح لڑیں گے جیسے ہمارے باپ دادا لڑتے تھے اگر کابل میں شراکت اقتدار کا کوئی فارمولہ طے پا جاتا ہے تو اِس سے پنج شیر کا مزاحمتی محاذ بنا لڑائی بھی فتح کر لیا جائے گا لیکن اگر پنج شیر سے جنگ شروع ہوئی تو اندیشہ ہے کہ یہ دیگر صوبوں میں بھی پھیل جائے گی۔تاہم یہاں یہ تذکرہ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پنجشیر میں مزاحمت کو بڑھا چڑھا کر بھارتی اور امریکی میڈیا ہی پیش کر رہاہے زمینی حقائق کے حوالے سے ایک سینئر تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ پنجشیر سے کبھی بھی کابل حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے اور طالبان کی گزشتہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے بھی امریکہ کویہاں آنا پڑا۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ احمد شاہ مسعود کے بھائی مصالحت کے حق میں ہیں اور زیادہ امکان ہے کہ پنجشیر بغیر کسی لڑائی کے فتح ہوجائے۔