تاریخ کا واحد سبق یہ ہے کہ ہم تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ امریکہ صومالیہ، ویتنام اور عراق میں ناکام ہوا مگر افغانستان آکر اس نے ایک اور ناکامی اپنے نام کرلی ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ صدر بائیڈن افغانستان پر طالبان کے قبضے اور امریکہ سفارت کاروں اور ہمکاروں کے انخلا میں مشکلات کے بعد بھی امریکی انخلا کا دفاع کر رہے ہیں اور اپنی غلطی نہیں مان رہے۔یہ اسکے باوجود کہ اب تک چار امریکی صدور کی نگرانی میں افغانستان میں بیس برس گزارنے، پورے آٹھ لاکھ فوجی یہاں استعمال کرنے، 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرنے، چوبیس سو امریکی فوجیوں کو مروانے اور بیس ہزار کو زخمی کروانے، چھیاسٹھ ہزار افغان سپاہیوں کو کھونے، پچاس ہزار افغانوں کو مارنے، اپنے اکیاون اتحادیوں کو جنگ میں شریک کرنے اور ان کے بارہ سو سپاہی ہلاک کروانے، ساڑھے چار سو انسانی حقوق کارکنوں اور پچھتر صحافیوں کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھانے، پچیس لاکھ افغانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے اور یو این ایچ سی آر کے مطابق تقریبا پینتیس لاکھ کو اندرون ملک بے گھر کرنے کے بعد بھی امریکہ ایک گوریلا گروہ طالبان کو شکست نہ دے سکا جس نے پورے ملک کا کنٹرول سنبھالنے میں محض دس دن لگا دئیے۔آج صدر بائیڈن کہتے ہیں امریکہ یہاں ناکام نہیں ہوا کیوں کہ افغانستان میں ہمارا مشن یہ تھا کہ یہاں سے امریکہ محفوظ ہوجائے اور یہ مشن 2011 میں ہی اسامہ کی موت سے پورا ہوچکا تھا مگر سوال بنتا ہے کہ آپ اس کے بعد افغانستان میں کیا ریوڑیاں بانٹ رہے تھے۔ امریکہ کہتا تھا یہ جنگ دہشت گردی ختم کرنے، افغانستان میں جمہوریت قائم کرنے، منشیات کی پیداوار ختم کرنے اور خطے میں ایک دوست حکومت بنانے کیلئے ہے لیکن آج افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے سفارت کاروں اور ہمکاروں کو بحفاظت نکالنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔اگرچہ صدر بائیڈن کو ان کے مشیروں اور انٹلی جنس اداروں نے مشورے دئیے تھے کسی بین الافغان معاہدے سے قبل افغانستان سے اپنی فوجیں نہ نکالیں مگر انہوں نے فوج نکال لی اور افغانستان طالبان کے گود میں آگرا بلکہ وہاں خانہ جنگی کے امکانات بڑھا دئیے۔ وہ تو بھلا ہو طالبان کا کہ انہوں نے سب کیلئے معافی کا اعلان کرکے یہ امکانات کم کر دئیے۔بائیڈن انتظامیہ طالبان کی پیش قدمی کی رفتار اور افغان فوج کی مزاحمتی صلاحیت بارے درست اندازہ کرسکی اور نہ امریکی شہریوں اور افغان اتحادیوں کے انخلا کیلئے پیشگی منصوبہ بندی کر سکی۔ 1964 میں لنڈن جانسن اور ان کے ساتھی ڈیموکریٹس نے مطلق اکثریت حاصل کی لیکن 1965 کے اوائل میں ویت نام میں لڑنے کیلئے فوج بھیجنے کے فیصلے نے جلد ہی جانسن کا ایجنڈہ پٹڑی سے ہٹا دیا اور 1966 کے وسط مدتی مقابلوں میں مخالف ریپبلکن پارٹی نے ایوان میں 47 نشستیں حاصل کیں اور آٹھ ریاستوں میں ڈیموکریٹک گورنروں کی جگہ ریپبلکن گورنرز آگئے۔جس طرح ویتنام کے بحران سے لنڈن بی جانسن کو اور عراق کی وجہ سے جارج ڈبلیو بش کو بڑا سیاسی نقصان اٹھانا پڑا، افغانستان کا بحران امریکہ کے اندر صدر بائیڈن اور ان کی پارٹی اور دنیا میں امریکی ساکھ کو بہت نقصان پہنچائے گا۔ صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی بھی اگلے مڈٹرم انتخابات میں دونوں ایوانوں کا اپنا محدود کنٹرول آسانی سے کھو سکتی ہے۔رہنما بعض اوقات جھوٹ بولتے ہیں لیکن جو غلطیاں تسلیم کرلیتے ہیں وہ اپنی مقبولیت برقرار رکھ لیتے ہیں۔ جس طرح جان ایف کینیڈی نے 1961 میں اپنی غلطی اور بل کلنٹن نے 1998 میں مونیکا لیونسکی سکینڈل تسلیم کیا تھا۔بائیڈن شکست قبول کرنے اور امریکہ کی غلطیاں ماننے سے ہچکچارہے ہیں مگر صرف ایسا کرنے سے ہی قیمتی جانوں کے ضیاع اور ملکی وسائل ضائع ہونے پر ماتم کی شدت کم کی جاسکتی ہے اور آئندہ کیلئے کچھ سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔امریکہ کے اتحادی بھی صدمے میں ہیں۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے جمعرات کو یورپی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں طالبان کے اچانک قبضے اور اس سے پہلے امریکی فوجی انخلا کے بارے میں کہا "مجھے صاف اور دو ٹوک بات کرنے دیں۔ یہ ایک المیہ ہے۔" جرمن پارلیمنٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین نوربرٹ روٹگن کے بقول "میں یہ بات بھاری اور لرزتے دل کے ساتھ کہتا ہوں کہ امریکہ کی جانب سے قبل از وقت انخلا ایک سنجیدہ اور دور رس غلط اندازہ تھا۔اس سے مغرب کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو بنیادی نقصان پہنچا ہے۔"برطانوی پارلیمنٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ ٹام ٹوگندھات نے افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کی آمد کو ایک زبردست دھچکا اور سوئز نہر کے بعد خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی تباہی قرار دیا۔ کونسل آف فارن ریلیشنز کے صدر رچرڈ ہاس کے مطابق کابل کے تیز زوال نے 1975 میں ویت نام میں سیگون کے ذلت آمیز زوال کی یاد دلائی ہے۔