میں نے پانچے والے سے پوچھا کہ آپ اس ہوٹل میں مٹی کے کاسوں میں اوجھڑی پانچے ڈال کر گاہکوں کو پروستے ہیں۔کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ آپ شادی بیاہ والے خوانچوں والے سالن کے سفید پلاسٹک کے پیالوں میں یہ پانچے ڈال کر اپنے کسٹمرز کو پیش کریں۔ کلر میچنگ کتنی خوبصورت ہوگی۔کیونکہ پیش کاری ہی تو سب کچھ ہے۔جس انداز سے کوئی چیز پیش کی جائے اسی سے تو بھرے ہوئے پیٹن پر بھی از سرِ نو کھانے کو جی کرتا ہے۔اس نے کہا صیب یہ بات نہیں۔جو پیالے آپ نے کہے ہم یہاں ضرور قابلِ استعمال کریں۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ بعض گاہک کھائیں گے اور پیالے بھی چوری کرکے لے جائیں گے۔ ہم کس کس کی تلاشی لیں گے۔ مجھے حیرت ہوئی پھر سوچا اور ڈھارس ہوئی کہ یہ بندہ سچ کہہ رہاہے۔ہم لوگ خود اچھے نہیں۔ اسی لئے ہم پرقوم کی حیثیت سے آفتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ہم لوگ اپنا نقصان خود کرنے والے ہیں۔اب جلسے جلوسوں میں کیا ہوتا ہے۔اپنی ہی سرکاری عمارات کو نقصان پہنچاتے ہیں مگر کون جانے کے یہ تو ہمارے خود کا نقصان ہے۔مگر اس بات کو سمجھنے کیلئے دماغ چاہئے۔پھر اگر دماغ ہو تو اس کیلئے سوچ بھی درکار ہے۔اگرسر لا تعداد ہیں تو دماغ محدو د ہیں اور پھر ان ذہنوں میں سوچ تو انتہائی کم تعداد والے صاحبان کے دلوں میں پائی جاتی ہے۔ورنہ کسی دکاندار کو اور کیا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اپنے بزنس کی ترقی اور گاہکوں کی بڑی تعداد۔مگر یہاں تو معاملہ وہ نہیں جو میرے دماغ میں اس وقت تھا۔ کون ہے جو سری پائے کاشوقین نہیں ہوگا۔ پشوری ہوگا اور پشاوری ہو گا اور پانچوں سے دل بستگی نہ ہو ایسا تو ممکن نہیں۔میں نے اس لئے کہا کہ یہ ایک شوقین فرد کی فریاد تھی۔ پانچوں کا سرخی مائل شوربہ سفید پیالے کے خوبصورت وال پیپر میں کتنا اچھا لگے گا۔ ان مٹی کے پیالوں میں تو سالن کی وہ سرخی ماند پڑ جاتی ہے۔کیوں نہ بندہ کھائے تو شوق اور بڑھے کہ دوسرا پیالہ منگوالے لے۔ یہ تو اسی وقت ہوگا جب پانچوں کے پیش کئے جانے میں حسن ہو۔مجھے وہ حاجی صاحب یاد آئے۔ جو اپنی دکان کے آگے اور اپنی گھر کی گلی آس پاس نالیوں اورنالوں کے ڈھکن لوہار سے بنوا کر لگاتے تھے۔ ایک بار میں نے کہا پوچھا کئی نالیوں پر سے سرپوش غائب ہیں۔مگر لگائے نہیں گئے۔ انھوں نے جواب دیا یار کیا کریں کتنے ڈھکن آئیں گے۔لاتا ہوں لگاتا ہو ں۔مگر یہ لوگ یہ ڈھکنے بھی اکھاڑ کر لے جاتے ہیں۔شام کولگاؤ اور صبح اٹھ کر دیکھو تو وہی نالیاں بغیر ڈھکن کے ہوتی ہیں۔دل ٹوٹ سا گیاہے۔اب ہم دودھ بیچ کر اپنی ساری کمائی ان ڈھکنوں پر تو صرف نہیں کر سکتے۔مجھے یاد آیا میں نے بازار بزازاں میں ایک بڑے حمام سے گرمی کی شدت میں عین دوپہر کوایک گلاس ٹھنڈا پانی پیا تو دل کو وہ تراوت ملی کہ جیسے میں جنت میں گھوم رہاہوں۔ مگر گلاس کو حمام کے ساتھ زنجیر سے باندھا گیاتھا۔میں نے اس دکاندار سے پوچھا کہ آپ نے گلاس کو کیوں باندھ رکھاہے۔ گلاس کوآزاد کر کے کیوں نہیں رکھتے۔یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے۔اس نے کہا یاراجی بات ایسی ہے کہ لوگ ایک تو مفت کاپانی اس قد آدم حمام میں سے پیتے ہیں۔ مگر ساتھ میں گلاس بھی چرا کر لے جاتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوئی مگر تھوڑی دیر کو۔لیکن پریشانی نہ ہوئی۔ کیونکہ ہم لوگ ہیں ہی ایسے۔جو چیزیں ہمارے فائدے کیلئے ہیں ہم ذاتی طورپر ایک آدمی اس کے استعمال کے بعد اس کو توڑدیتا ہے چرا لیتا ہے۔اس کو احساس نہیں ہوتا کہ اس چیز کو کسی دوسرے کے کام بھی آنے دینا چاہئے۔بزاز نے کہا اتنے گلاس کہاں سے آئیں گے۔ ذرا آنکھ سڑک سے چوکتی ہے حمام کا گلا س چوری کر لیا گیا ہوتا ہے۔اسی لئے ہم نے سوچاکہ گلاس کو رسی ڈال کر رکھیں گے۔ اس وقت میں سوچ میں پڑ گیاکہ اب کس کس چیز کوزنجیر پہنائی جائے۔ اب کے ہم آزاد ہیں یہ ایک سوچ ہے۔کیونکہ ہمارے جسم آزاد ہیں ہماری سوچ غلامی کی زنجیروں میں اب تک قید ہے۔ہم لوگ تو آزادی کے نام پر اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔سینما ہالوں میں فلم دیکھیں گے مگر جاتے جاتے جیب میں چھپائے گئے چاقوسے اپنی ہی کرسی جس پر ہم بیٹھے تھے اسی کو چھیل کرکاٹ کر لٹکتی ہوئی ریکسین چھوڑ کر اندھیرے میں غائب ہو جائیں گے۔ جب تک ہماری سوچ میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آتی تبدلی نہیں آئے گی۔ گھروں اورعمارتوں کے باہر کے رنگ و روغن بدلنے سے اورگاڑی کے تبدیل کرنے سے ہماری سوچ ہر گز بدل نہیں سکتی۔معلوم نہیں کہ ہم باہر کی دنیاکے ملکوں کی نگاہوں میں کب کامیاب ہوں گے۔