کھیل کھیل میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کھیلنے کے قابل نہیں رہی اور بیرون ملک دورے کے دوران ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس پر ٹیم گرین کے شائقین اُف اُف کر رہے ہیں اور ’کرکٹ رے کرکٹ‘ کی دہائیاں دے رہے ہیں اور قدرت ساتھ دے رہی ہے کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف دوسرے ٹیسٹ مقابلے کے دوسرے دن متواتر بارش کی وجہ سے کھیل شروع نہیں ہوا ورنہ پاکستان کے پوزیشن مزید غیرمستحکم ہوتی۔ مذکورہ مقابلے کے پہلے روز پاکستان نے چار وکٹوں کے نقصان پر دوسوبارہ رنز بنائے۔ میچ میں میزبان ٹیم نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی تو پاکستانی اوپنرز کا آغاز بالکل اچھا نہیں تھا۔ پاکستان کی پہلی وکٹ دو کے سکور پر گری جب عابد علی ایک رن بنا کر کیمار روچ کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔ پھر دو کے ہی مجموعی سکور پر کیمار روچ نے اظہر علی کو بھی آؤٹ کر دیا۔ اظہر علی کوئی رنز نہیں بنا سکے۔ اس کے بعد ابھی پاکستان کا مجموعی سکور دو ہی تھا تو دوسرے اوپنر عمران بٹ بھی آؤٹ ہوگئے۔ عمران بٹ نے صرف ایک قیمتی رن بنایا۔ اس بدترین آغاز کے بعد کپتان بابر اعظم اور فواد عالم نے آ کر ٹیم کو سنبھالا۔ ان دونوں کے درمیان ایک سو اٹھاون رنز کی شراکت ہوئی۔ یوں ایک سو ساٹھ کے مجموعی سکور پر فواد عالم چھتہر رنز بنانے کے بعد اپنی ٹانگ میں تکلیف کے باعث ریٹائرڈ ہو کر پویلین لوٹ گئے تاہم فواد عالم کے جانے کے بعد بابر اعظم بھی زیادہ دیر کریز پر نہ رک سکے۔ وہ75 رنز بنا کر کیمار روچ کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔ تب پاکستان کا مجموعی سکور ایک سو اڑسٹھ ہو چکا تھا۔ اس وقت کریز پر موجود رضوان نے بائیس اور فہیم اشرف نے تیئس رنز بنا رکھے ہیں۔ پاکستانی بلے بازوں کے پہلی اننگز میں انتہائی بدترین آغاز اور غیرسنجیدہ کھیل کو سوشل میڈیا صارفین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ پاکستان کی ابتدائی اور اہم وکٹیں انتہائی کم سکور پر گر چکی تھیں۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے اِس کارکردگی کو طنزیہ انداز میں فٹ بال میچ کا سکور قرار دے دیا۔ جب تین کھلاڑی آؤٹ یکے بعد دیگرے ایک ہی سکور پر آؤٹ ہوئے تو اس وقت کی سکور لائن کے حوالے سے کھیل کے تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا صارفین کی رائے ایک جیسی تھی جنہیں اپنی آنکھوں دیکھے پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ عالمی کرکٹ مقابلے میں پاکستانی ٹیم کو دیکھ رہے ہیں جس کے چار کھلاڑی آؤٹ ہو چکے ہیں اور اُن کے ماتھے پر شکن تک نہیں دیکھی گئی جیسے اُنہیں اِس بات سے کوئی دلچسپی نہ رہی ہو کہ کھیل کا نتیجہ یا اُن کی کارکردگی معنی رکھتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے دن جب کھیل بارش کی وجہ سے رکا ہوا تھا تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کھلاڑی وقت گزارنے کیلئے ڈیشنگ روم میں فٹ بال کھیل رہے ہیں مگر ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی فٹ بال تو نہیں مگر ایک فٹ بال کی مدد سے ایک ایسی گیم کھیل رہے ہیں جو شاید ٹیبل ٹینس اور والی بال کا مرکب ہے یعنی پاکستانی صارفین کی تنقید پر کیا واقعی کھلاڑیوں نے فٹ بال کھیلے کا سوچ لیا ہے؟ دوسری جانب ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ نے بھی ایسی ہی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں ان کے کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم وقت گزارنے کیلئے کرکٹ کھیلتے دیکھا جا سکتا ہے مگر وہ بھی مذاق میں اڑائی گئی ویڈیو ہے۔ مذکورہ پاک ویسٹ انڈیز میچ کے حوالے سے ایک اور دلچسپ تبصرہ سابق ٹیسٹ کپتان راشد لطیف کی جانب سے آیا جنہوں نے اپنے پیغام میں تصویروں کی مدد سے دیکھایا کہ عمران بٹ شاٹ کے دوران داہنے پاؤں کے اگلے حصے پر بہت زیادہ وزن ڈال دیتے ہیں۔ دوسری جانب اظہر علی نے شاٹ کے دوران اپنی ایڑھی پر بہت زیادہ وزن ڈالا۔ دونوں بلے باز اسی وجہ سے اپنا توازن کھو بیٹھے اور اپنی اپنی شاٹس میں پھنس گئے۔ راشد لطیف کا مشورہ تھا کہ نئی گیند کے خلاف انہیں دیر سے کھیلنا چاہئے تاکہ وہ اپنی شاٹ میں لاک نہ ہو جائیں۔ ذہن نشین رہے کہ ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی ٹیم گرین کو پہلے ٹیسٹ میچ میں میزبان ٹیم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد صرف ایک وکٹ سے شکست دی تھی اور تب بھی ٹیم گرین کے شائقین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا کیونکہ جو مقابلہ صرف ایک وکٹ سے جیتا یا ہارا جا رہا ہو‘ اُسے باآسانی اپنے حق میں کیا جا سکتا تھا لیکن اگر کھلاڑی حوصلے‘ دماغ اور تربیت سے کام لیتے۔ کرکٹ ٹیم کی غیرمستقل کارکردگی میں پختگی اور مستقل مزاجی کو شامل کرنے کے فیصلہ سازوں کو غیرملکی دوروں سے زیادہ تربیت پر زور دینا ہوگا اور اگر غیرملکی دورے عالمی کرکٹ کے بندوبست میں ضروری ہیں تو پھر نئے کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے تاکہ شکست کے عوض کھلاڑیوں کو تجربہ تو حاصل ہو جو اُنہیں مستقبل کے کرکٹ مقابلوں میں کام آئے۔