سکھ کا سانس۔۔۔۔

افغانستان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمسایہ اور خطے کے ممالک اپنی اپنی قومی سلامتی سے متعلق امور کا جائزہ لے رہے ہیں اُور ہر ملک کی کوشش ہے کہ اُس پر افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے کم سے کم اثرات مرتب ہوں لیکن پاکستان مشکل میں ہے کیونکہ افغان سرزمین پر آنے والی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر مرتب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہر مشکل کی گھڑی میں آگے بڑھ کر افغان قوم کا ساتھ دیا۔ 1979ء سے 1989ء تک سوویت یونین (روس) کے خلاف لڑی گئی جنگ سے متاثر ہونے والے افغان عوام کی بڑی تعداد مہاجرین کے طور پر پاکستان آئی اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق اِس وقت بھی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود مہاجرین کے مقابلے زیادہ ہے۔ ’یو این ایچ سی آر‘ کے مطابق پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد چودہ لاکھ سے زیادہ ہے جو گزشتہ چالیس برس سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ حقیقت میں پاکستانی سرزمین پر افغان مہاجرین کی تعداد اس سے دو گنا سے بھی زائد ہے جتنی بین الاقوامی ادارے شمار کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ماضی میں افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ طالبان نے فتح کے بعد اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اب افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی‘ جو خوش آئند ہے لیکن پاکستان افغانستان میں پیدا ہونے والی نئی صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ نہ صرف اس صورتحال کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ بنایا جاسکے بلکہ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کی جاسکے۔ افغانستان کی تازہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں بھی تشویش کا اظہار سامنے آیا ہے۔ مذکورہ اجلاس میں روس نے طالبان کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ روسی سفیر برائے اقوام متحدہ نے کہا کہ صورتحال کیسی بھی ہو طالبان سے رابطہ رکھیں گے۔ کابل میں خونریزی سے گریز کیا گیا۔ آئرلینڈ کے سفیر نے کہا کہ سلامتی کونسل افغانستان میں خطرہ بھانپنے میں ناکام رہی۔ اب ہمیں نتائج سے نمٹنا ہو گا۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گتریس نے کہا کہ افغان فریقین شہریوں کا تحفظ یقینی بنائیں۔ موجودہ صورتحال میں عالمی برادری کو متحد ہونا ہو گا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹ ملی ہے۔ نمائندہ افغانستان نے سلامتی کونسل اجلاس سے خطاب میں کہا کہ افغانستان کے کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ افغانستان میں تشدد روکا جائے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ عالمی برادری افغانستان میں مخلوط حکومت کا قیام یقینی بنائے۔ افغانستان اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اُس کا کماحقہ ادراک اس تنازعے کے تمام فریقوں کو ہے۔ افغانستان میں امن و امان کے قیام اور نئی حکومت کی تشکیل کے لئے تمام فریقوں کو مل کر کوشش کرنی چاہئیں۔ صرف اسی صورت میں افغانستان میں ایسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جو افغان عوام اور تمام سیاسی دھڑوں کے لئے سکون اور اطمینان کا باعث بنے گی۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری کو آگے بڑھ کر امن و امان کے قیام کے لئے طالبان اور دیگر سیاسی دھڑوں کے درمیان مفاہمت کرانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ افغانستان میں متحارب دھڑوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لئے پاکستان ماضی میں بھی اہم کردار ادا کرچکا ہے اور وہ ایک بار پھر ایسا ہی کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس کے لئے اقوام متحدہ اور دیگر اہم اداروں کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہئے اور پاکستان کی نیک نیت کوششوں کا اعتراف بھی کرنا چاہئے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی خود افغانستان سے نکل گئے ہیں اُور اب جو مسائل افغانستان میں سر اٹھائیں گے ان کا سامنا افغان عوام اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کو کرنا پڑے گا۔ اِس منظرنامے میں اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ اپنی میزبانی میں افغان صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے افغان امن عمل کے تمام فریقوں کو کسی ایسے نتیجے تک پہنچنے میں سہولت فراہم کرے جس سے نہ صرف افغان عوام بلکہ ہمسایہ ممالک بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔