کیا دنیا کے بڑے اور چھوٹے ممالک افغانستان میں طالبان حکومت جلد تسلیم کرلیں گے یا نہیں؟ اور ایسے کسی بھی فیصلے کے کیا فوائد و نقصانات ہو سکتے ہیں؟طالبان نے افغانستان کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا ہے مگر ابھی تک واضح نہیں کہ حکومت کس طرح منتخب ہوگی، خواتین اور اقلیتوں بارے عملی پالیسی کیا ہوگی، کیا وہ واقعی کسی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کو برداشت نہیں کریں گے اور نہ اسے دہشت گردی کی اجازت دیں گے، کیا وہ بین الاقوامی قوانین اور ذمہ داریوں کا احترام کریں گے۔ اس طرح کے سوالوں اور معاملات پر طالبان کی پالیسیاں واضح ہوجائیں گی تو ہر ملک اپنے مفادات اور امکانات کو دیکھتے ہوئے طالبان کو تسلیم کرنے، ان کے ساتھ تعلقات کار رکھنے یا ان کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کرے گا۔طالبان کی افغانستان میں 1996 میں جب پہلی حکومت قائم ہوء تھی تو صرف پاکستان، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ اس وقت وہ اپنی سخت گیری کیلئے مشہور تھے لیکن اس بار وہ برداشت، معافی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کررہے ہیں۔ ان کے تبدیل شدہ انداز اور دنیا میں پاور پالیٹکس اور مختلف ملکوں کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس بار انہیں چین، روس اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے زیادہ حمایت مل جائے گی۔چین اور روس غالبا جلد طالبان حکومت کو تسلیم کرلیں گے اور ان کو دیکھتے ہوئے وسطی ایشیاء ممالک، ایران، ترکی اور پاکستان بھی ایسا کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اس کے بعد باقی ممالک بھی کسی ایک طرف ہوجائیں گے۔پاکستان نے پہلے ہی کہا ہے کہ وہ اپنے ہم خیال ممالک کے ساتھ مشورے کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔اس حال میں کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی اور بھارت اپنے سب شہریوں اور سفارت کاروں کے انخلا میں لگے ہوئے ہیں کیوں کہ انہیں ماضی میں اپنے کردار کی وجہ سے خدشہ ہے ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاسکتا ہے، روس، چین،ترکی اور پاکستان نے اپنے سفارت خانے معمول کے مطابق کھلے رکھنے اور طالبان کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔اب تک صرف کینیڈا نے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکہ کہہ رہا ہے وہ طالبان انتظامیہ کے عملی طرز عمل کو دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کرے گا مگر اس نے اور یورپی یونین طالبان نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔بظاہر امریکہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے بارے سکوت اور تامل دکھا رہا ہے کہ اس دوران وہ افغانستان میں اپنے شہریوں، سفارت کاروں اور افغان ہمکاروں کو بحفاظت یہاں سے نکال لے جائے۔ امریکہ میں یہ رائے بھی ہے کہ اسے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے نہ کرنے کا فیصلہ طالبان حکومت کی تشکیل، پالیسیوں، ترجیحات اور اپنے اتحادیوں اور خطے کے ممالک کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد کرنا چاہئے۔ یاد رہے امریکہ نے کمیونسٹ چین کو تیس سال اور کمیونسٹ ویتنام حکومت کو بیس سال بعد تسلیم کیا تھا۔ امریکی ریاست جنوبی کیرولینا کی سابق گورنر اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بھارتے نژاد نکی ہیلی نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم میں امریکی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا ان لاکھوں امریکی فوجیوں اور کنٹریکٹروں اور ہزاروں ہلاک شدگان کی توہین ہوگا جو پچھلے بیس سال طالبان کے خلاف لڑتے رہے۔ ہیلی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ امریکہ نے کہا تھا کہ طالبان اگر بزور حکومت پر قبضہ کریں تو اس کی مخالفت کریں گے۔ مگر اس نے اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ جبکہ کینیڈا نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا اور یورپی یونین بھی ایسا کرنے کیلئے بے تاب نہیں۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، جو جی7 کے اس وقت سربراہ ہیں، رکن ممالک امریکہ، اٹلی، فرانس، جرمنی، جاپان اور کینیڈا کو کہا ہے کہ اگر طالبان انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور افغان سرزمین کو عسکریت پسندوں کیلئے پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے دیتے ہیں تو جی7 کو ان پر اقتصادی پابندیوں پر غور کرنا چاہیے۔مگر ابھی تک طالبان نے کابل ہوائی اڈے جانے والے امریکی شہریوں پر حملے نہیں کیے اور وہ معاہدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔ اس لیے پابندیوں کا جواز نظر نہیں آتا۔ اگرچہ طالبان نے سب افغانوں کیلئے معافی اور دنیا کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا ہے اور سب ممالک کو یقین دہانیاں کروائی ہیں کہ افغانستان میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو برداشت کیا جائے گا اور نہ کسی کو یہاں سے کسی بھی ملک کے خلاف دہشتگردی کرنے کی اجازت دی جائے گی مگر امریکہ، بھارت اور کچھ ممالک اب بھی طالبان کی حالیہ کایاپلٹ کے باوجود ان کی ماضی کی بنیاد پر ان پر تنقید کررہے ہیں لیکن یہ پالیسی بوجوہ نقصان دہ اور غیر حکیمانہ ہے۔بہتر تو یہ ہے کہ طالبان کے انداز و اطوار میں مثبت تبدیلیوں کے انعام کے طور پر امریکہ اور ا س کے اتحادی ان کی حکومت کو تسلیم کرلیں۔ ان کے ساتھ میل جول بڑھا کر انہیں مزید قابل قبول پالیسیاں اپنانے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ سمجھتے ہیں ایسا کرنا طالبان کے بزور حکومت ہتھیانے کو جواز مہیا کردے گا تو پھر مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بجائے محدود تعلقات کار قائم کیے جائیں۔ اس سے پہلے بھی امریکہ نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں لکھا گیا تھا کہ یہ معاہدہ طالبان کے امارت اسلامی افغانستان، جسے امریکہ تسلیم نہیں کرتا، اور امریکہ کے درمیان ہو رہا ہے۔ تو اب بھی ایسا کیا جاسکتا ہے‘امریکہ اس سے پہلے بھی کئی ممالک میں تسلیم کئے بغیر وہاں قائم حکومتوں کے ساتھ تعلقات کار رکھتا رہا ہے۔ چین کی بہترین حکمت عملی اور طالبان کے ساتھ مستقل رابطے و تعلق کی وجہ سے افغانستان اپنے معدنی وسائل اور تزویراتی اہمیت کے ساتھ چین کے ہاتھ آرہا ہے لیکن اس کے باوجود چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کو یقین دلایا کہ چین امریکہ کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر کام کرنے کو تیار ہے۔