پہلی پیشرفت: افغانستان میں صورتحال اگرچہ پیچیدہ ہے جس کے حل کیلئے مختلف ممالک اور ادارے تجاویز پیش کررہے ہیں اور کسی حد تک اِن کوششوں سے مدد بھی مل رہی ہے تاہم مسلم ممالک کی نمائندہ‘ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اَفغانستان کے بارے خاطرخواہ فکرمند نہیں تھی اور نئی پیشرفت یہ سامنے آئی ہے کہ ’او آئی سی‘ نے افغان صورتحال پر غور کرنے کیلئے ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ افغانستان کی مدد کرے۔ اجلاس میں افغانستان میں انسانی صورت حال کے بگڑنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کورونا وبا و خشک سالی کے باعث بے گھر ہونے والے افغانوں (آئی ڈی پیز) و مہاجرین کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے رکن ممالک‘ اسلامی مالیاتی اداروں اور شراکت داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان علاقوں میں انسانی امداد کی فراہمی کیلئے تیزی سے کام کریں جن کی اسے سب سے زیادہ اور فوری ضرورت ہے۔دوسری پیشرفت: دوسری طرف طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے متعلق پاکستان کے تحفظات پر تین رکنی اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم کیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ مذکورہ کمیشن نے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے اور کالعدم تحریک طالبان کے رہنماؤں کو پاکستان کے ساتھ معاملات حل کرنے اور پاکستانی حکومت کی جانب سے عام معافی کی صورت میں خاندانوں کے ہمراہ واپس جانے پر زور دیا ہے۔ یہ بات پاکستان کے نکتہئ نظر سے خوش آئند ہے کیونکہ ماضی میں کالعدم ٹی ٹی پی بالعموم ملک کے مختلف شہروں اور بالخصوص قبائلی علاقوں میں بہت سے مسائل پیدا کرتی رہی ہے۔ اس حوالے سے بھارت نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے کبھی گریز نہیں کیا اور صورتحال کو مزید بگاڑنے اور پاکستان میں تخریب کاری کی کاروائیاں کرانے کیلئے اس نے بھرپور کردار ادا کیا لیکن نئی صورتحال اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ اب بھارت چاہ کر بھی نہ تو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرسکے گا اور نہ ہی کوئی ایسا دھڑا پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا جو افغان طالبان سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق رکھتا ہے۔ افغان امن عمل کی تکمیل کیلئے جو ممالک سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ نہ صرف طالبان پاکستان کی عزت کرتے ہیں اور اس کے مؤقف کو اہمیت دیتے ہیں بلکہ وہ مختلف معاملات میں پاکستان کی بات بھی مانتے ہیں۔ سابقہ افغان حکومت کے ساتھ طالبان کا مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنا اس سلسلے کی ایک واضح مثال ہے۔ اسی طرح‘ جو بین الاقوامی ادارے افغانستان میں امن و امان کے قیام کیلئے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں او آئی سی بھی ان میں سے ایک ہے‘ جسے چاہئے کہ وہ افغان امن عمل کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے فوری طور پر ”ورکنگ گروپ“ یا خصوصی کمیٹی تشکیل دے اور پاکستان کا اس گروپ یا کمیٹی میں مرکزی حیثیت دی جائے۔ یوں خطے میں امن و سلامتی اور استحکام کیلئے خطرہ بننے والے ایک بڑے مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل پاکستان اور او آئی سی کے تعاون سے فراہم کیا جاسکتا ہے۔ او آئی سی کا افغان صورتحال کے حل کیلئے کوششیں خوش آئند ہیں اور مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ہونے کی وجہ سے یہ پاکستان‘ سعودی عرب اور ترکی سمیت کئی اہم ممالک کو اس سلسلے میں پوری طرح ساتھ لے کر چل سکتی ہے۔ یہ تنظیم پہلے بھی افغان امن عمل کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دوہزاراٹھارہ میں مکہ میں ہونے والی بین الاقوامی علما کانفرنس برائے افغان امن و استحکام کے انعقاد میں بھی او آئی سی نے اہم کردار ادا کیا تھا اور مذکورہ کانفرنس میں افغانستان میں قیام امن کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں او آئی سی کے تحت ہونے والے اسلامی سمٹ اور وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاسوں میں بھی افغانستان میں امن و امان کے قیام کیلئے قراردادیں منظور کی گئیں۔ حالیہ اجلاس کے موقع پر افغان عوام سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ تنظیم کے رکن ممالک افغانستان میں امن و سلامتی‘ استحکام و ترقی کیلئے مدد کریں گے۔ نئی حکومت کی تشکیل کیلئے افغان دھڑوں کے درمیان باضابطہ مذاکرات بھی آئندہ چند روز میں شروع ہوں گے۔ امید ہے کہ جلد ہی کابل میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جائے گی جو افغان عوام اور عالمی برادری کیلئے یکساں قابل قبول ہوگی۔ افغان فریقوں کو اس بات کا احساس اپنی جگہ اہم ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل بذریعہ طاقت نہیں بلکہ باضابطہ مذاکرات کے ذریعے ہونی چاہئے۔ یہ ایک بات سمجھنے میں افغانوں کو چار دہائیاں لگ گئیں ہیں کہ جنگ اور طاقت کا استعمال کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتے اور مذاکرات (افہام و تفہیم) ہی ملک و ملت کے مستقبل کا تعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔تاہم یہاں یہ امر قابل اطمینان ہے کہ طالبان نے شروع دن سے ہی اس بار مصالحت اور مذاکرات کی بات کی ہے اور اپنے تمام مخالفین کیلئے عام معافی کا علان کیا ہے۔اب یہ عالمی برداری کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان میں پائیدار امن کیلئے افغانستان کو اکیلا نہ چھوڑے بلکہ مل کر پہلے معاشی ترقی اور استحکام کیلئے کام کرے اور پھر مسلسل اس عمل میں شریک رہے تاکہ عرصہ دراز سے خانہ جنگی کے شکار افغانستان کو ترقی اور کامرانی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔ اس سلسلے میں اولین ذمہ داری ان ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بیس سال تک یہاں پر جنگ کے شعلے بھڑ کائے رکھے اب ان کو چاہئے کہ اس ملک کی آبادی میں بھی اپنا حصہ ڈالیں، تاہم لگتا یہ ہے کہ اس بار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بجائے چین افغانستان کی آباد کاری میں سرگرمی سے حصہ لے گا اور ون بیلٹ ون روڈ پالیسی کو افغانستان تک توسیع دے کر نہ صرف اس ملک بلکہ آگے وسطی ایشیاء تک ترقی اور خوشحالی کے ا س منصوبے کے اثرات کو لے جانے کیلئے عملی اقدامات کریگا اور یقینا ایک خوشحال افغانستان پورے خطے کے لئے اہم ہے۔