مجھے تو وہ شعر یاد آتا ہے ”اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے۔مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے“۔شہر بھر میں گھوم جائیں۔ جس قبرستان کے دروازے دیواریں نہ ہوں۔ان کوبھی پامال کیا جا رہاہے۔اگر دروازے کے اندر قدم اٹھانے پر بندہ کا بس نہیں چلتا تو وہ اپنے گھریلو گند کی چھاپڑی دیوار کے اوپر سے اچھال کر قبرستان کے اندر پھینک دیتا ہے۔اگر کسی قبر کی بے حرمتی ہو جائے تو اس سے کسی کوسروکار نہیں۔پھر اگر جو قبرستان کھلے ہیں۔جن کا کوئی والی وارث نہیں۔ان قبرستانوں کوتو خوب بوخمال کیا جاتا ہے۔اتنا روندا جاتا ہے کہ قبرستان کی زمین کی چیخیں بھی سنائی دیتی ہیں۔یہ اب شہرِ خموشاں نہیں رہے۔ یہاں تو ہاؤ ہو کا وہ شور ہوتاہے کہ توبہ توبہ کرناپڑتی ہے۔اندر وہ بھاگم دوڑی ہے کہ دھول اٹھ اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔مگر یہ لوگ جو قبرستانوں کے اندر کرکٹ کے میچ بلکہ ٹورنامنٹ کھیلتے ہیں ان کو مجال ہے کہ کوئی لاج آتی ہو یا یہ لوگ آرام سے بیٹھتے ہوں۔ یہ قبرستان تو اب کوڑے کے ڈھیر بن چکے ہیں۔کچھ بن رہے ہیں۔اندر تو اس ٹورنامنٹ کے فائنل کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔مہمانِ خصوصی کو کرسی پر بٹھا کر پھر جیت جانے والی ٹیم کو ٹرافی بھی دی جاتی ہے۔کہیں بھی اس شہرِ ناپرساں میں آرام نہیں۔آخری ہو یا پہلی آرام گاہ ہر جانب بے چینی کے بھونپو بجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔اگر دیواریں چڑھا دیں تو نوجوان اوباش ان دیواروں کو لاتوں سے گرا دیتے ہیں۔اندر جاکر آخری قبر کے پیچھے دیوار کے پاس بیٹھ کر ہیروئن کانشہ کیا جاتاہے۔اندرتوبس ایک اپنی سی حکومت ہے۔قبرستان کے احاطے میں ایک الگ راج ہے۔ جہاں لوگوں کے گھر ہیں وہاں تو کچھ لحاظ پاس کیا جاتا ہے۔مگر جہاں ویرانی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں وہاں تو خوب گند انڈیلاجاتا ہے۔کسی شان و شوکت والے وزیر مشیر نے پشاور کے بہت سے قبرستانوں کے گر داپنے زور و زر سے دیواریں کھینچ دیں۔ ان کا بہت کارنامہ ہے۔مگر جن قبرستان کے گرد دیواریں اٹھائی نہیں جا سکتیں وہاں تو شہریوں کے بے ہنگم ہجوم جوق در جوق پہنچ جاتے ہیں۔عید کو تہوار وہیں مناتے ہیں۔ قبرستانوں میں بچوں کیلئے جھولے لگائے جاتے ہیں۔حالانکہ یہ مقامات ہمارے لئے مقدس ہیں۔یہاں ہمارے باپ دادا دفن ہیں‘اس مقام کااحترام ضروری ہے۔مرنے والے ہماری زندگی سے چلے جاتے ہیں ہمارے دل سے تو نہیں جا تے۔ہمارے دماغ میں ان کی یادیں بسی ہوتی ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ان کو ان قبرستانوں میں دفن کر کے ہم وہاں کوڑے کے ڈھیروں کو ہمہ وقت دیکھتے رہیں۔اصل میں ہمارے پاس کوئی ایسا مقام نہیں جہاں ہم اپنا گند گرا سکیں۔ عین شہر کے وسط میں تو کاروبار کی بہار ہے۔ تنگ و تاریک گلی کوچے ہیں۔جہاں ایک دو ایک مرلے مکان کی قیمت ایک کروڑ روپے ہوتی ہے۔اب وہاں کوڑے ڈھیرکیلئے پانچ مرلہ جگہ کہاں سے آئے گی۔ کون کوڑے کیلئے کوئی مقام مختص کرے گا۔ سو شہریوں کو زحمت گوارا نہیں کہ اپنا گند تھوڑا دور جا کر گرا کرآئیں۔جہاں گند گریل کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی ڈمبپروغیرہ پڑا ہو۔پھراندرون شہر کا کیا ذکر کریں باہری علاقوں میں جو قبرستان ہیں وہ کھلے علاقوں میں واقع ہیں۔ وہاں بھی یہی بد حالی ہے۔جیسے انھوں نے اپنے عزیزوں کو بھلا دیا۔قبرستان کے ایک کونے میں کوڑے کا ڈھیر ہے۔ روزبروزجس کی جسامت میں اضافہ ہورہا ہے۔حالانکہ شہری چاہیں تو کہیں بھی کوڑے کا ڈھیر ایجاد ہونے نہ پائے۔ یہ اپنا کوڑاایک شاپرمیں ڈال کر تھوڑا دور سہی مگر پھینک کر آ سکتے ہیں۔مگر شاپر کی بچت کی جاتی ہے۔کوڑے کی بالٹی جو پہلے سے گندی ہوتی ہے جس کو دھویا نہیں جاتا اسی میں گھر کامزید گند ڈال کر لے جا کر کہیں قریب میں خالی کر آتے ہیں۔آج کل تو ڈسپوزبل چیزوں کا زمانہ ہے۔استعمال کرو اور پھینک دو۔باہر کے ملکو ں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ہر گھر کو شاپر مہیاکر دیئے جاتے ہیں۔ وہ شہری اپنا گند شاپروں میں ڈال کر گھر کے باہر رکھ دیتے ہیں۔صفائی کا عملہ اپنے وقت پرروز آکر کوڑا ٹھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ہمارے ہاں صفائی کے عملے کے آنے نہ آنے کا بھی مسئلہ ہے۔ہمار ے شہر میں یہ تجربہ ہوا مگر ایسا کہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ سنا تھا کہ شاپر تقسیم ہوئے ہیں۔مگر بات بھی آئی گئی ہوگئی۔یہاں تو گٹر کے لوہے کے ڈھکن بھی اٹھا کرلے جاتے ہیں اور بیچ باچ کر اپنا نشہ پانی پورا کرتے ہیں۔