چودہ اگست کے روز مینار پاکستان (گریٹر اقبال پارک‘ لاہور) میں خاتون سے بدتہذیبی کے معاملے پر جہاں قانونی کاروائی جاری ہے اور جہاں سماجی سطح پر مختلف پہلوؤں سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں وہیں حکومت کی جانب سے تفریحی مقامات کیلئے خاص نوعیت کا ”ضابطہئ اخلاق“ بھی بنایا گیا ہے جس پر عمل درآمد کون کرے گا اور عمل درآمد کون کروائے گا یہ الگ غورطلب موضوعات ہیں کیونکہ اگر قانون کا خوف یا عمل داری ہوتی تو سب سے پہلے قانون کے خوف کی وجہ سے خاتون کے ساتھ بدتہذیبی کے واقعات پیش ہی نہ آتے۔ قانون کی عمل داری کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ فون پر اطلاع دینے کے بعد اگر پولیس فوراً موقع پر نہیں پہنچی تو مستقبل میں پولیس کے مستعد ہونے کی ضمانت کون دے گا؟ بنیادی ضرورت معاشرتی اصلاح کی ہے اور معاشرتی اخلاقیات کی سمت کے تعین کرنے کی ہے۔ یہ بحث بھی قومی سطح پر ہونی چاہئے کہ ہمارا معاشرہ آخر کس طرف جا رہا ہے؟ کیا ہمارے ہاں کمزور طبقات خواتین‘ بچے‘ بزرگ‘ معذور یا مالی طور پر کمزور افراد‘ محفوظ ہیں؟ کیا حکومتی ادارے کمزور طبقات کو تحفظ دینے میں کامیاب ہیں اور کیا عوام کا حکومتی کوششوں اور اداروں کی کارکردگی پر اعتماد موجود ہے!؟ جواب چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں بنیادی حقوق سے متعلق قانون و قواعد کی نہ تو خاطرخواہ بالادستی نظر آتی ہے اُور نہ ہی اِن کے بارے میں عوامی شعور کی سطح بلند ہے!حقیقت ِحال یہ ہے کہ جب بھی خاتون‘ بچے‘ بچی‘ بزرگ‘ معذور یا غریب و لاچار شخص کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے اور وہ اگر سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائے توقانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں لیکن یہ صرف وقتی ردعمل ہی ہوتا ہے جس میں جرم کے اسباب و نفسیات اور پس پردہ محرکات پر غور نہیں کیا جاتا۔ اِسی طرح ہر سانحے (نئے واقعے) کے بعد نئی تجاویز بھی سامنے آتی ہیں اور ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں ماہرین اپنے زریں خیالات کا اظہار کرتے ہیں جن میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کے علاوہ ایوان بالا کے اراکین (سینیٹرز) بھی شامل ہوتے ہیں لیکن حال وہی کا وہی ہے کہ صرف ’مینار پاکستان‘ ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر بازار اور گلی کوچے کی حالت ایک جیسی ہے کہ وہاں کمزور طبقات خود کو محفوظ نہیں سمجھتے! تفریحی مقامات پر آئندہ کسی (ممکنہ) بدتہذیبی سے بچنے کیلئے ایک تجویز یہ بھی زیرغور ہے کہ ایسے پرہجوم پبلک مقامات پر سوشل میڈیا کے صارفین (ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز) کا داخلہ بند کر دیا جائے اور اِس سلسلے میں پنجاب کی صوبائی حکومت پبلک پارکوں میں اِس پابندی کا اطلاق کرنے جا رہی ہے‘ جسے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا کر اِس بارے عوامی ردعمل کو دیکھا جا رہا ہے۔ اس تجویز سے متعلق گردش کرتی خبریں سوشل میڈیا صارفین (ڈیجیٹل دنیا کے باسیوں) سے پریشان کن ہیں‘ جو اپنی شخصی آزادی اور تخلیقی قوتوں پر عائد ہونے والی اِس پابندی کو غیرضروری اور غیرمناسب ہونے کے علاوہ غیرقانونی بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ اِس کا تعلق آزادیئ اظہار پر قدغن سے ہے۔ پنجاب کے پبلک پارکس کی سیروتفریح کیلئے جانے والے اپنے ساتھ موبائل فون اور ایسے آلات نہیں لے جا سکیں گے جن سے وہ اپنی یا دوسروں کی ویڈیوز بنا سکیں تو کیا ایسا ممکن ہے کہ آج کے دور میں کوئی شخص بنا موبائل فون کہیں آ جا سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نوجوان نسل صحت مند معمولات اور کھانے پینے کے بغیر تو زندگی کا تصور کر سکتی ہے لیکن موبائل فون اور انٹرنیٹ کے بغیر اِنہیں دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے! پنجاب حکومت نے تاحال ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی اور نہ ہی کوئی باضابطہ پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن صرف ایک تجویز پر غور ہو رہا ہے‘ جسے سوشل میڈیا صارفین ضرورت سے زیادہ سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ٹک ٹاکر اور یوٹیوبرز ایسے کسی بھی ضابطے کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور وہ اِس کی خلاف ورزی کرنے کیلئے متحد و پرعزم دکھائی دے رہے ہیں تو اُمید ہے کہ حکومت ایسی کسی بھی قانون سازی یا قواعد کی صورت پابندی متعارف نہیں کروائے گی جس پر عمل درآمد ممکن نہ ہو اور جو پاکستان کیلئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ ضرورت نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت کی ہے تاکہ اُنہیں اپنی (شخصی) اور گردوپیش میں رہنے والوں کی (اجتماعی) آزادی سے متعلق حدود و قیود کا اندازہ ہو۔ تربیت کا عمل گھر‘ تعلیمی اداروں کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی مسلسل ہونا چاہئے کیونکہ جہاں کہیں بے راہ روی کو ظاہر ہونے کا موقع ملتا ہے تو یہ سیلاب کی صورت معاشرے کی ہر اچھائی اور خوبی کو بھی خس وخاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہے۔