افغانستان میں بتدیلی آگئی ہے اور طالبان نے ایک بار پھر افغانستان پر اپنی حکمرانی کی رہ ہموار کی ہے اور اس وقت حکومت سازی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ پورے افغانستان میں بغیر کسی خون خرابے کے ان کا حکومت سنبھالنا کئی حوالوں سے خوش آئند ہے کہ خودن کی ندیاں نہیں بہیں اور تبدیلی آگئی۔ تاہم اس حوالے سے کچھ مختلف رد عمل بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔امریکہ میں مقیم افغا ن دانشور اور نا ول نگار خا لد حسینی کا اخط پڑھنے کو ملا خا لد حسینی نے افغانستان میں بدلتے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کچھ اسی طرح کے خیالات انسا نی حقوق کے کچھ اداروں اور یورپی ممالک نے بھی کیا ہے۔ شہری آزادی کے قوانین کا تقا ضا یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور افغا نستان کیلئے ایک ہی معیار ہونا چا ہئے مگر ایسا نہیں ہے امریکہ اور یورپ میں انسا نی حقوق اور شہری آزادی کا جو معیار ہے اس کے مطا بق امریکہ کی آ مش برادری کو ان کی مر ضی کے مطا بق جینے کا حق دیا گیا ہے، بر طا نیہ کی ویلش برادری اپنی مر ضی کی زندگی گزار رہی ہے، کینڈا میں مینو نا ئٹ نا م کا قبیلہ ہے جس کو اپنی مر ضی کی زند گی گزار نے کا پوراحق دیا گیا ہے لیکن جب افغا نستان کے تین کروڑ عوام اپنی مر ضی کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو امریکہ اور یو رپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا ئی جاتی ہیں اور وہاں رہنے والے افغا نی بھی چیخ اُٹھتے ہیں کہ ایسا کیو ں ہو رہا ہے؟ یہ لبر ل اور کنزر ویٹیو کی بحث نہیں یہ قدامت پسند اور ترقی پسند کی بحث نہیں یہ صرف انسا نی حقوق کے دہرے معیار کی بحث ہے تم پوری دنیا کیلئے الگ معیار اور افغا نستان کیلئے الگ معیار کیو ں رکھتے ہو؟ امریکہ میں آمش (Amish) عیسائی قبیلہ جدید دور کی ترقی کو قبول نہیں کر تا،سڑک اور بجلی کو قبول نہیں کر تا کھیتی باڑی کیلئے مشینوں کے استعمال کو قبول نہیں کر تا‘سکول‘ کا لج اور یونیورسٹی کی تعلیم کو نہیں مانتا امریکی آئین نے اس قبیلے کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کا حق دیا ہے ان پر جبر کر کے جدیدیت اور ترقی کو مسلط کرنے کی اجا زت نہیں بر طا نیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس کو پرنس آف ویلز کا خطا ب دیا گیا ہے ویلز کی آبا دی ویلش کہلا تی ہے ویلش (Walsh) ایک الگ قبیلہ ہے جو انگریزی زبان، انگریزی سکول اور ذرائع ابلا غ میں انگریز ی کے استعمال کا مخا لف ہے ویلش کو بر طا نیہ کے قا نو ن نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ویلش زبان میں تعلیم، اخبار، ریڈیو اور ٹی وی پر و گرام چلا ئیں بازاروں شاہرا ہوں اور دفتروں کے سائن بور ڈ انگریزی کی جگہ ویلش زبان میں لکھوائیں یہ ان کا بنیا دی انسا نی حق ہے جسے حکومت نے بھی اور بر طا نیہ کے عوام نے بھی خو شی سے تسلیم کیا ہے اسی طرح کینڈا میں ایک مذہبی اقلیت رہتی ہے اس کو مینو نا ئٹ (Mennonite) کہتے ہیں یہ عیسا ئیوں کا الگ گروہ ہے کینڈا کے آئین میں اس کو مکمل آزادی حا صل ہے یہ لوگ الگ تھلگ نہیں رہتے کینڈا، امریکہ اور افریقہ میں جہاں بھی رہتے ہیں آبا دی میں گُھل مل کر بستے ہیں اور اپنے عقائد پر عمل کرتے ہیں یورپ اور امریکہ کے ذرائع ابلاغ نے کبھی ان کو خوف اور بد امنی کی علامت قرار نہیں دیا اگر افغا نستا ن کی آبا دی امریکہ سے 7ہزار کلو میٹر دور سمندر پا ر پہاڑی وادیوں میں اپنی روایات اورثقافت کے مطابق زند گی گذار نا چا ہتی ہے تو باقی دنیا کو کیا تکلیف ہے؟ تم نے جو حق آمش کو دیا ہے، ویلش کو دیا ہے، مینو نا ئٹ کود یا ہے وہی حق افغا ن کو کیوں نہیں دیتے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی