افغانستان کا نیا منظر نامہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان کا نیامنظر نامہ کیا رخ اختیار کرتا ہے اور وہاں آنے والی تبدیلی افغانستان کے ساتھ ساتھ خطے کے حالات پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے اس حوالے سے تا دم تحریرنہ تو کوئی بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنا اتنا آسان ہے جتنا بالعموم تصور کیاجاتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنیادی وجہ اولا ًتو افغانستان کی عمومی صورتحال ہے جس کے بارے میں پچھلے چالیس پچاس سالوں سے کوئی بھی مستحکم رائے قائم کرنا بہت مشکل امر رہا ہے ثانیاً موجودہ حالات نے جس تیزی سے پینترابدلا ہے اسکی توقع شایدان حالات کو بدلنے کا موجب بننے والوں کو بھی نہیں رہی ہوگی۔ افغان امور کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے افغانستان کے حالات پر ہماری نظر ویسے تو افغان جہاد کے زمانے سے رہی ہے لیکن جس سرعت سے یہاں پچھلے دو ہفتوں کے دوران حالات میں تغیر واقع ہوا ہے اسکی نظیر پچھلی پانچ دہائیوں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ افغانستان کے شمالی صوبوں سے اپنی پے درپے فتوحات کا آغاز کرنے کے بعد طالبان جس تیزی اور برق رفتاری کے ساتھ جنوب مشرقی افغانستان کی طرف بڑھ رہے تھے اور شہر کے شہر راتوں رات بغیر کسی بڑی مزاحمت کے انکے قبضے میں آ رہے تھے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی افغانستان میں ایک بڑی خونریزی اور نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کے خدشات ظاہر کر رہا تھا۔ صفحوں کے صفحے اس بات پر سیاہ کئے جا رہے تھے کہ طالبان کی یہ پیش قدمی عارضی اور مصنوعی ثابت ہوسکتی ہے بلکہ بعض لوگ تو طالبان کی ان ابتدائی فتوحات کو طالبان کو ٹریپ کرنے، امریکی انخلاء کو عارضی طور پر روکنے، طالبان کے ٹھکانوں پرامریکی میزائل اور فضائی حملوں کی راہ ہموار کرنے یہاں تک کہ بھارتی فضائیہ اور سپیشل سروسز گروپ کے دستوں کی افغانستان میں اترنے کے امکانات سے جوڑ رہے تھے۔ دراصل اس بیانیے کے پیچھے جہاں افغانستان کے پلک جھپکتے میں زمین بوس ہونے والے سیاسی و دفاعی ڈھانچے کی بیس سالوں تک امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی جانب سے کی جانے والی پرورش اور اس ضمن میں کی جانے والی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کوبطور دلیل پیش کیا جا رہا تھا وہاں افغان حکومت بالخصوص اشرف غنی اور انکے ہمنوا شمالی اتحاد کی جانب سے طالبان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے دعوے کئے جارہے تھے۔ یہ وہ ظاہر ی عوامل تھے جن کی بنیاد پر ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا امریکی انخلا کے باوجود افغان سیکورٹی فورسز میں اتنا دم خم ہے کہ وہ نہتے اور بے سر و سامان طالبان کا مقابلہ کر سکیں گی لیکن یہ خیال اس وقت خیال خام ثابت ہوا جب پہلے ہرات کے سابق گورنر اور معروف جنگجوراہنما اسماعیل خان نے بغیر لڑے سرنڈر کرتے ہوئے ہرات کو طالبان کے حوالے کیااور بعد میں طالبان آندھی بن کر افغانستان کے دوسرے بڑے شہر اور ماضی میں طالبان کا گڑھ رہنے والے قندھار شہر پر قابض ہوئے۔ ہرات اور قندھار جیسے اہم سٹریٹیجک شہروں کے سقوط سے محض دو یا تین دن پہلے جب اشرف غنی نے محاصرہ شدہ مزار شریف کا دورہ کیا اور وہاں ازبک جنگجوکمانڈر اور سابق نائب صدر رشید دوستم اور بلخ کے سابق گورنراور شمالی اتحاد کے اہم راہنما استاد عطا نور سے ملاقات کی تو اس ملاقات کی فوٹیج میڈیا کو جاری کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی گویا افغان حکمران نہ تو خوف اور بد دلی کا شکار رہیں اور نہ ہی اتنی آسانی سے طالبان کے ہاتھوں شکست تسلیم کرنے پر آمادہ ہونگے اس تما م تر پیش رفت کے باوجود عام تاثر یہ تھا کہ افغان حکومت کم از کم کابل سے اتنی آسانی سے دستبردار اور پسپا نہیں ہو گی بلکہ وہ کابل کے دفاع کیلئے آخری حد تک جا ئیگی یہ وہ نکتہ تھا جس نے عام افغانوں اور افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کو پریشان کر رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ پاکستان امریکی انخلاء کا ٹائم فریم سامنے آنے کے بعد بالعموم اور انخلاء کی ڈیڈ لائن قریب آنے کے موقع پر بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے انخلاء سے پہلے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیاں سیاسی تصفیے پر زوردے رہا تھا لیکن اس دوران اشرف غنی نے بغیر کسی تصفیے کے جس سرعت سے افغانستان چھوڑا اس نے حالات کو مزید گھمبیر بنا دیا اس صورت حال کو جہاں کابل ایئر پورٹ پر ہزاروں افراد کی یلغار اور وہاں کا کنٹرول امریکی افواج کے ہاتھوں میں جانے نے دھماکہ خیزبنا دیا ہے وہاں سابق نائب صدر امراللہ صالح اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے جانب سے وادی پنجشیر میں مسلح مزاحمت کے اعلان نے بھی حالات کے مزید خراب ہونے کی تشویش میں اضافہ کر دیاہے البتہ اس تمام صورتحال کا یہ پہلو ہر لحاظ سے قابل اطمینان ہے کہ طالبان نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اس مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد جہاں اپنے مخالفین کیلئے عام معافی کا اعلان کیا ہے وہاں انکی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ شراکت اقتدار پر ان کی رضامندی کوبھی ایک بڑ ابریک تھروقراردیا جارہاہے جس پر حالات نسبتاً بہتری کے جانب گامزن ہونے کی امیدباندھی جا سکتی ہے۔