افغان مہاجرین کا مسئلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں غیریقینی کی صورتحال ہے اور اگرچہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے اور طالبان ماضی سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں لیکن اُن کے خوف سے ہزاروں افغان بھاگ کر یہاں وہاں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں بائیس لاکھ پناہ گزین پہلے سے ہی موجود ہیں اور تقریباً پینتیس لاکھ افغان جاری تنازعے اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے افغانستان کی سرحدوں پر بے گھر ہیں۔ اِس بارے میں درست اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ کل کتنے افغان پناہ کسی بھی ملک میں پناہ لینے کے خواہشمند ہیں لیکن اُن کی تعداد ماضی سے زیادہ بتائی جا رہی ہے اور عالمی امدادی ادارے اِسے ’نیا انسانی المیہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف طالبان کا افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تمام مرکزی زمینی راستوں پر کنٹرول ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی افغان ملک چھوڑ کر جائے۔ اطلاعات ہیں کہ طالبان صرف تاجروں یا اُن لوگوں کو ملک سے جانے کی اجازت دے رہے ہیں جن کے پاس مکمل سفری دستاویزات (پاسپورٹ اور ویزے) موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ’افغانوں کی اکثریت باقاعدہ طریقوں کے ذریعے ملک چھوڑنے کے قابل نہیں اور جو لوگ اپنی جان و مال کے نقصانات کو لیکر اندیشوں اور خطرات کا شکار ہیں‘ اُن کے پاس افغانستان سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تاہم اِس سنگین صورتحال میں کچھ افغان مہاجرین باہر نکلنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کئی ہزار افغان طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے کچھ دیر بعد ہی پاکستان میں داخل ہو گئے تھے، جبکہ قریب پندرہ سو افغان ازبکستان میں داخل ہونے کے بعد سرحد کے قریب ہی خیموں میں رہ رہے ہیں۔ کابل میں‘ ہزاروں لوگ ملک سے باہر جانے کی کوشش میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کا رخ کر رہے ہیں‘ جو اس وقت ملک میں واحد ہوائی اڈہ ہے جہاں سے پروازیں اڑ رہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے چودہ اگست سے تیس ہزار افراد کو ہوائی جہازوں کے ذریعے کابل سے نکالا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے عام افغان شہری ہیں۔ افغانستان میں کئی برسوں سے جاری عدم استحکام اور خانہ جنگی کی وجہ سے افغان شہریوں کو مجبوراً ہجرت کرنا پڑ رہی ہے اور حالیہ ہجرت بھی اسی تاریخی انخلا کا حصہ ہے اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے بقول سال دوہزار اکیس میں ساڑھے پانچ لاکھ زیادہ افغان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر پینتیس لاکھ افغان بے گھر ہوئے ہیں۔ افغانستان کو صرف خانہ جنگی ہی سے واسطہ نہیں بلکہ ملک کے بیشتر حصوں میں خشک سالی اور خوراک کی کمی کی وجہ سے بھی لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی جون دوہزاراکیس میں آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ چالیس لاکھ افغان (جو افغانستان کی کل آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ ہیں) بھوک کا شکار ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق دوہزاربیس میں قریب پندرہ لاکھ افراد پاکستان گئے جبکہ ایران نے سات لاکھ اَسی ہزار افراد کو پناہ دی۔ ایک لاکھ اَسی ہزار سے زیادہ افراد کے ساتھ جرمنی تیسرے نمبر پر جبکہ ترکی نے تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار افغانوں کو پناہ دی تھی۔ اگر صرف پناہ کے متلاشی افغانوں کے اعداد و شمار کو ہی دیکھا جائے تو کہ وہ جنہوں نے کسی دوسرے ملک میں پناہ کیلئے درخواست دی ہے لیکن جن کی ابھی درخواست منظور نہیں ہوئی تو ان میں ترکی‘ جرمنی اور یونان بالترتیب ایک لاکھ پچیس ہزار‘ تینتیس ہزار اور بیس ہزار کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ اگرچہ ایران میں پناہ کے متلاشی یا درخواست گزار افغان موجود نہیں ہیں لیکن وہاں جن مہاجرین کے پاس مہاجر کارڈ ہیں۔ یہ کارڈ سرکاری دستاویز ہے جس سے کسی شخص کی مہاجر حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایران نے مہاجر کارڈ رکھنے والوں کو صحت اور تعلیم کے نظام تک رسائی دی ہے لیکن اُنہیں اپنی مرضی سے کسی بھی شہر جانے کی اجازت نہیں۔ مزید افغان مہاجرین کو پناہ دینے سے متعلق پاکستان کا بیان جون دوہزاراکیس میں سامنے آیا تھا جب وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اگر طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تو ان کا ملک اپنی سرحد بند کر دے گا تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور کئی ہزار افغان پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایران نے اپنے تین صوبوں میں مہاجرین کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عارضی بستیاں قائم کی ہیں۔ اِن تینوں صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں لیکن ایرانی وزارت داخلہ کے سینئر حکام نے کہا ہے کہ جو افغان بھی ایران میں داخل ہوں گے انہیں ’حالات بہتر ہونے کے بعد واپس بھیج دیا جائے گا۔‘ اقوام متحدہ کے مطابق ایران پہلے ہی قریب پینتیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ افغانستان کی صورتحال پاکستان اور ایران دونوں کیلئے تشویشناک ہے کیونکہ اِس کی وجہ سے انہیں لاکھوں افراد کی میزبانی کرنا پڑے گی جبکہ دونوں ممالک (ایران و پاکستان) کی معاشی صورتحال کورونا وبا کے باعث پہلے ہی دباؤ میں ہے۔