جرم و سزا کی نئی دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک افسانے میں پڑھاہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔۔ خاندان میں کسی کے گھر شادی بیاہ وغیرہ پر جاتے۔اس وقت ا ن کو دیکھ کر بھلے چنگے لوگ مریض بن جاتے۔جن میں گذری عمر کے رشتہ دار زیادہ ہوتے۔ہر ایک اپنی اپنی بیماری بتلاتا اور اس کاآسان علاج پوچھناچاہتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی روزانہ کی اس جھک جھک سے تنگ آچکے تھے۔جس کو بیماری نہ بھی ہوتی اس کو بھی موقع مل جاتا۔وہ اپنی سی کوئی بیماری تلاش کر کے ڈاکٹر صاحب کے سامنے اظہارِ حال کردیتا۔ڈاکٹر صاحب ہر ایک کو کوئی نہ کوئی علاج بتلا دیتے۔سخت سردی کے دن تھے ایک صاحب اسی طرح کے محفل میں ڈاکٹر صاحب سے فرمانے لگے کہ ڈاکٹر صاحب لحاف میں ہوں تو ٹھیک ہے مگر لحاف سے پاؤں باہر نکالوں تو ٹھنڈ لگتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جب سردی ہے تو پاؤں لحاف سے نکالنے کی ضرورت ہی کیا ہے، یہ بات مجھے یاد آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل ہمارے ہاں وکٹم بلیم کا رجحان چل نکلاہے۔مطلب یہ کہ جو مصیبت کاشکار ہوتا ہے اکثر اسی پر الزام دھر لیا جاتا ہے۔بجائے اس کے کہ اس کی مصیبت کا تدارک کریں۔ الٹا اس کو کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ تماری اپنی وجہ سے ہواہے۔اگر تم ویسا نہ کرتے تو تمہارے ساتھ ایسا نہ ہوتا۔ مطلب یہ کہ ظالم کو چھوڑ کر مظلوم کے پیچھے پڑگئے۔ اس کو انگریزی میں وکٹم بلیمنگ کہتے ہیں۔اکثر طور پر انگلش سے آئی ہوئی اصطلاحات کاترجمہ نہیں ہوتا۔ وہ لفظ ویسے کاویسا لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔وہ آسان بھی ہوتاہے۔اس کاترجمہ یا ترجمہ کرنے کی کوشش کرنا دوسرے کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔یعنی جس کے ساتھ ظلم ہو اس کے خیر خواہ اسی کو پکڑ کر گوندھیں۔یہ تو جڑ کو چھوڑ کر شاخوں کو پکڑنے والی بات ہوگی۔ گذر جانے والے سانپ کی لکیر کو زمین پر ڈنڈے مارناہے۔ہمارے ہاں آج کل اسی طرح کا ٹرینڈ چل رہا ہے۔ارضِ وطن میں آزادی سے گھومنے پھرنے کی اجازت ہر ایک کو ہے۔مگر بعض اوقات کسی کو یہ کہناکہ تم گھر سے باہر کیوں نکلے۔تمھارے ساتھ ایسا تو ہوناہی تھا۔ یہ درست سوچ نہیں۔اگر وہ نہیں نکلے گا تو کوئی دوسرا نکل آئے گا۔ آپ کسی یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ رہزن تمہیں نہ ہولوٹتے اگر تم نے گھر سے باہر قدم  نہ نکالا ہوتا۔اس طرح تو جرائم عام ہوتے جائیں گے۔پھر اس حکمتِ عملی کے تحت سب شہری گھروں میں مقیم ہو جائیں گے۔شہر کاشہر بھائیں بھائیں کرے گا۔بندہ نہ انسان شہر کا شہر سنسان چٹیل میدان۔ جب جرم ہوتا ہے۔پھر اس کو سامنے رکھ کر مجرم کی نئی حرکت کے مطابق نیا قانون تیار ہوتا ہے۔کچھ جرائم کی سزاپہلے عمر قید تھی۔بندہ باہر نکل ہی آتا تھا۔مگر اب تو سرکاری ایوانوں سے تاحیات قید کی سزا کاسن رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آخری سانس تک زندان میں بھیجنا۔پہلے تو ہمارے ہاں نہیں تھا۔ مگر اب سرِ عام موت کی سزا دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔یہ سائبر کرائم پہلے تو نہ تھے جب موبائل کا وجودہی نہ تھا۔ یہ اب پانچ سالوں سے سوشل میڈیا پر جو ہلڑبازی مچی ہوئی ہے اسی کو سامنے رکھ کر میڈیا کے جرائم پر سزا کی باتیں ہیں۔اس کے علاوہ جرائم کے نئے پن کو دیکھ کر سرکاری ایوانوں کے برآمدوں میں نئی نئی سزاؤں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ جرائم کے خاتمے یا اس کے کم ہو جانے کی کوشش کا نام ہے۔مگر ظاہر ہے کہ جہاں انسان بستے ہیں۔پھر جہاں سائنس کی روز ایک نئی کروٹ ہوتی ہے۔وہاں جرائم پیشہ افراد کو ایک نیا تحفظ مل جاتا ہے۔مگر دوسری طرف ان کے کسی اقدام کی وجہ سے ایک نئی طرح کی سزا بھی وجود میں آ جاتی ہے۔جرائم کاعلاج نہ کریں اورمظلوم کو موردِ الزام ٹھہرائیں۔اس طرح تو مجرم کی اورپشت پناہی ہوگی۔ پھراس صورتِ حال کو دیکھ کردوسرے لوگ جوجرم کرنے میں حیل حجت کررہے ہوں گے ان کوہلہ شیری ملے گی۔اسی آشیر بادکے تحت وہ اور تگڑے تیار ہو کر معاشرے کو روندیں گے۔ پامال کر کے خوش ہوں گے۔ ٹھان لیں گے کہ ہمارا تو کوئی پوچھنے والانہیں۔ آؤ کھل کھیلو جوجی میں آئے کرو اور دودھ کے دھلے بن کر معاشرے کی رگوں میں اندھیرے کی طرح پھرسے سرایت کر جاؤ۔ ہزاروں سالوں سے جرائم پر سزاؤں کاقانون ہے۔پھر قانون نئے بن رہے ہیں۔حالات و واقعات کے مطابق نئی نئی سزائیں بھی وجودپا رہی ہیں۔خاص یہ کہ آج کل مجرم کوپکڑنے میں فرانزک ٹیکنالوجی سے کام لیا جاتا ہے۔مگر حیرانی کہ جتنا تفتیش شفاف اور فوری ہے۔جتنا مجرم کو جلد او رآسانی سے پکڑ تے ہیں۔اتنا ہی اسی طرح کے جرائم ملک کے طول و عرض روز کے حساب سے زیادہ ہو رہے ہیں۔