کابل دھماکہ: گونج و اثرات

افغانستان کے دارالحکومت ”کابل ائرپورٹ‘‘کے مرکزی دروازے کے قریب ہوئے 3یکے بعد دیگرے خودکش حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 110 ہو چکی ہے جن میں 13 امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔ الجزیرہ (عرب) ٹیلی ویژن اور مختلف افغان ذرائع ابلاغ کے مراسلوں سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ دھماکوں کے نتیجے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ زخمی مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں اور اِن میں ایک تعداد ایسے زخمیوں کی بھی ہے جن کی حالت انتہائی نازک ہے اور افغانستان میں طبی عملے‘ ادویات اور خون کی کمی ہے۔ اِس حملے سے تین روز قبل امریکہ نے ایسی کسی دہشت گرد کاروائی کے بارے خفیہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اور یورپی ممالک کے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ ائرپورٹ سے فاصلے پر رہیں۔جن قارئین کو کابل کے ”حامدکرزئی انٹرنیشنل ائرپورٹ“ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ ائرپورٹ کے مرکزی داخلی دروازے کے علاوہ آمدورفت کے لئے دو دیگر دروازے بھی استعمال کئے جاتے ہیں اور اِن دونوں دروازوں کے درمیان ایک نکاسیئ آب کا نالہ گزرتا ہے‘ جو انسانی قد سے زیادہ گہرا بنایا گیا ہے اور اِس کی دیواریں بھی پتھر سے مضبوط بنائی گئی ہیں۔ افغانوں کی بڑی تعداد گندگی و غلاظت سے بھرے اِس نالے کو عبور کر کے ائرپورٹ کی دیوار پھلانگنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں سینکڑوں کی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ پہلے خودکش حملہ آور نے ائرپورٹ کے مرکزی دروازے جو کہ جنوب کی سمت ہے اُسے نشانہ بنایا جبکہ مشرق کی جانب دروازے کے قریب ہوٹل کو دوسرے خودکش حملہ آور نے نشانہ بنایا۔ یہ ہوٹل اُن غیرملکیوں کے لئے سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کا مرکز بنایا گیا ہے جو طالبان کے سقوط کابل کے بعد سے افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں۔ جن افغانوں کے پاس امریکہ یا کسی یورپی ملک کے سفارتخانے یا فوجی مرکز کے ساتھ بطور ترجمان کام کرنے کی سند موجود ہے‘ اُنہیں بھی یہی سے رجوع کرنے کو کہا گیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ یہاں بھی افغانوں کا ہجوم رہا کیونکہ زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں تھیں اور جن کے پاس اِس بات کے بھی ثبوت نہیں تھے کہ اُنہوں نے کسی امریکی یا اتحادی ملک کی فوج کے ساتھ بطور ترجمان یا معاون خدمات سرانجام دی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ایسے تمام افغانوں کو اپنی زندگیاں خطرے میں محسوس ہو رہی ہیں جنہوں نے امریکہ یا اِس کی اتحادی افواج کے ساتھ کسی بھی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں  اگر عام معافی کے اعلان پر‘ اِسی انداز میں عمل درآمد جاری رہتا ہے تو یہ اسلامی و انسانی تاریخ میں ایک شاندار باب کا اضافہ ہوگا۔کابل ائرپورٹ خودکش حملوں کے بعد اگلے ہی روز (ستائیس اگست) امریکہ اور یورپی ممالک نے افغانوں و غیرافغانوں کے انخلاء کا عمل شروع کیا البتہ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ 31 اگست سے پہلے اِس عمل کو مکمل کر لیا جائے گا تاہم اِس انخلاء کو مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایسے ہزاروں افغان باقی رہ جائیں گے جو بیرون ملک پناہ لینے کے خواہشمند ہیں لیکن اُن کے لئے اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کرنے کے امکانات بھی اب پہلے سے زیادہ پُرخطر ہوں گے۔ یہ افغان نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے ہیں کہ جنہوں نے ائرپورٹ کی دیوار پھلانگنے کی کوشش میں اپنی جانیں گنوا دیں۔  حقیقت یہ ہے کہ عزت کی زندگی وہی ہے جو افغانستان کو آباد کرنے اُور اِس کی معیشت و معاشرت کو بحال کرنے میں ہے۔ غیرملکی امداد‘ شفقت و عنایات کے سہارے مانگے کی زندگی و آسائش سے بہتر وہ روکھی سوکھی ہے جسے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ افغانستان میں خانہ جنگی اور بدعنوانی کا ایک طویل دور اختتام پذیر ہونے پر مزید انسانی المیوں کو جنم دینے کی بجائے سیکورٹی خدشات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح افغان امن اُور اِس کی معاشرت کو نقصان پہنچانے والے وار پر وار کر رہے ہیں اُور وہ ایسا مزید بھی کر سکتے ہیں‘ لہٰذا افغانوں کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اُور پہلے سے زیادہ پھونک پھونک کر رکھنا ہے کیونکہ نہ صرف اِس سے اُن کی جان و مال کی سلامتی جڑی ہوئی ہے بلکہ افغانستان کا وقار اُور ایک غیور معاشرے کی ساکھ بھی جڑی ہے‘ جسے کسی وقتی مشکل کی وجہ سے اتنا نیچا نہیں کرنا چاہئے کہ اِس کا مذاق اُڑایا جائے۔آخر دنیا منتشر افغانوں کی نااتفاقیوں سے کتنا فائدہ اُٹھائے گی اور افغانوں کے صبر کا مزید کتنا امتحان لیا جائے گا؟