افغانستان میں امریکی انخلا ء کے بعد چین کیلئے سیاسی، اقتصادی اور قائدانہ کردار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور چین اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے اور خلا ء کو پر کرنے کے لئے تیار ہے۔امریکہ جب افغانستان کو فتح کرنے میں لگا ہوا تھا تو اس دوران چین افغانستان کو طبی امداد، ہسپتال، شمسی توانائی اور دیگر مدات میں لاکھوں ڈالر کی امداد فراہم کرتا رہا، تجارتی تعلقات کو فروغ دیتا رہا اور جلد وہ افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی بن گیا۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان کی حکومت اور طالبان دونوں سے بیک وقت راہ و رسم بڑھاتا اور افغانستان میں مفاہمت کیلئے دوڑدھوپ کرتا رہا۔ نتیجہ یہ ہے کہ طالبان کی آمد پر روس، چین، پاکستان، ترکی اور ایران وغیرہ خوش و مطمئن ہیں جبکہ بھارت، امریکہ، برطانیہ اورکینیڈا پریشان و سرگرداں ہیں کہ افغانستان میں ان کا کردار ختم یا کم ہورہا ہے۔امریکی انخلاء کے بعد چین طالبان کے افغانستان کو وہ کچھ دے سکتا ہے جو اس کی ضرورت ہے یعنی طالبان حکومت کو تسلیم کرکے جواز دینا، عالمی سیاست میں اس کی حمایت کرکے اسے امریکہ سے بچانا اور انفراسٹرکچر، انڈسٹری اور جدید ذرائع آمد و رفت میں سرمایہ کاری، تعمیرنو میں مدد اور مالیاتی تعاون فراہم کرنا۔نئی صورت حال میں روس اور چین کی باہمی قربت، طالبان اور افغانستان کے تمام پڑوسیوں کے ساتھ ان کے خوشگوار تعلقات، چین کے اقتصادی مفادات اور طالبان کی عالمی ضروریات کے پس منظر میں چین اور طالبان ایک دوسرے کے ناگزیر حلیف بن رہے ہیں۔افغانستان میں امریکہ کی شکست اور یہاں سے ہنگامہ خیز انخلا ء کے بعد بین الاقوامی اور خطے کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔طالبان اور افغانستان کو چین اور روس کی طرف سے اقتصادی اور سیاسی تعاون کے علاوہ اقوام متحدہ میں قیمتی سفارتی تعاون بھی ملے گا۔ طالبان افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری چاہتے ہیں جو چین کرنے کیلئے تیار ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چین افغانستان کی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کے ساتھ وہاں وسیع البنیاد حکومت، امن اور ترقی کا داعی ہے۔ چین کی خواہش ہے طالبان افغانستان میں امن کے علمبردار بنیں اور سب کو ساتھ لیکر چلیں۔یوں تو امریکہ اور چین دونوں افغانستان میں قومی مفاہمت اور وسیع البنیاد حکومت چاہتے ہیں اور دونوں کا مشترکہ مفاد اس میں ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ہو۔ مستقبل میں چین اگر طالبان حکومت کو مان لیتا ہے اور امریکہ اسے تسلیم نہ کرے تو دونوں کے درمیان طالبان بارے طرزعمل پر خطے اور عالمی فورمز میں اختلافات نظر آئیں گے۔ تاہم چین اور روس اگر طالبان کے ساتھ ہوں تو امریکہ اقوام متحدہ میں ان پر پابندیاں نہیں لگوا سکتا۔چین نے اپنے 8000 فوجیوں کو افغانستان میں متوقع امن فوج کیلئے سٹینڈ بائی فورس کے طور پر رجسٹر کیا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کا امن مشن یہاں تعینات کیا جاتا ہے تو چین اس میں ہراول دستے کا کردار ادا کرے گا۔افغانستان میں قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی مالیت کا تخمینہ تقریباً 10 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ چین دنیا کی صنعتی دھاتوں اور معدنیات کا بڑا خریدار ہے۔2008 ء میں دو چینی کمپنیوں نے افغانستان کے لوگر صوبے میں تانبے کے پاور پلانٹ، ریلوے اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر کے تین ارب ڈالرز کے ٹھیکے حاصل کئے تھے مگر علاقے میں بدامنی، آثارِ قدیمہ کی موجودگی اور مطلوبہ انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ان پر کام نہ ہوسکا۔افغانستان کے ساتھ چین کی صرف چند کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ چین واخان کوریڈور پر ایک تجارتی سڑک بنانا چاہتا ہے اور وہ اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کے تحت پشاور سے کابل تک موٹر وے بھی بنانا چاہتا ہے جو وسطی ایشیا ء اور مشرق وسطیٰ کی منڈیوں تک رسائی کے لئے ایک مختصر زمینی راستہ ہوگا مگر اس سب کچھ کیلئے امن و استحکام لازمی ہے۔چین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیتا ہے جبکہ امن، معافی اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی پالیسی کی وجہ سے طالبان کی تعریف کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چینی سفیر چن شو نے کہا کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور دوسرے ممالک کا احتساب کیا جانا چاہئے۔ امریکہ نے افغانستان سے عجلت میں انخلاء کرکے یہاں بدامنی چھوڑی ہے اور اب اسے افغانستان میں مفاہمت اور تعمیر نو سے متعلق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔ طالبان نے چین کی افغانستان میں سرمایہ کاری اور تعمیر نو میں مدد کا خیر مقدم کرنے اور چینیوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ترجمان کے مطابق چین افغانستان کی نشاطِ نو میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔چین یکم اکتوبر 1949کو قائم ہوا اور جنوری 1950 میں افغانستان نے اسے تسلیم کرلیا۔ چین افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کاروں کی مدد بھی کرتا رہا۔ طالبان 1990 ء میں آئے تو چین نے ان کے ساتھ روابط قائم کئے۔ چینی حکام نے 1999 ء میں کابل کا دورہ کیا اور 2000 ء میں چینی سفارت کاروں کے ایک وفد کی ملا عمر سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ 2014 ء میں طالبان نے چین کا باقاعدہ دورہ کیا اور اور اب یہ مسلسل رابطے میں ہیں۔ پچھلے دنوں طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی چین کے دورے پر گئے جن کا خاصا پرجوش استقبال کیا گیا۔ چین تقریباً پندرہ ٹریلین ڈالرز کی معیشت کے ساتھ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ وہ پاکستان میں پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ وہ پوری دنیا میں سرمایہ کاری کا نقیب بن کر آیا ہے۔