آبا دی اور ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں ممبر اقوام کے اندر آبا دی اور ڈاکٹروں کا تنا سب دکھا یا گیا ہے ترقی یا فتہ اقوام اور ترقی سے محروم اقوام کا فرق نما یا ں کیا گیا ہے رپورٹ میں یہ انکشا ف کیا گیا ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) کے مطا بق ہزار نفوس کی آبا دی کیلئے سرکاری ہسپتال کا ایک ڈاکٹر ہو نا چا ہئے پا کستان میں 2300کی آبا دی کیلئے ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کی گنجا ئش رکھی گئی ہے مگر 70فیصد ہسپتالوں میں ڈاکٹر دستیاب نہیں رپورٹ کی جو موٹی مو ٹی باتیں اردو میں تر جمہ ہو کر اخبا رات کی زینت بن چکی ہیں ان میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اصول کے مطابق ایک ہزار کی آبا دی کیلئے ایک ڈاکٹر کے ساتھ 4نرس ہو نے چا ہئیں لیکن پا کستان میں 1500کی آبا دی کیلئے ایک نرس ہے وہ بھی اُس آبا دی میں واقع ہسپتال میں نہیں بلکہ قواعد وضوابط کے کا غذات میں ہے۔رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں 110میڈیکل کا لج ہیں ان میں سے صرف 10کا لجوں میں معیاری تعلیم کا انتظام ہے ان میں سے 8سر کاری شعبے میں اور دو نجی شعبے میں ہیں رپورٹ کا یہ حصہ خا صا تشویشنا ک ہے یعنی نجی کا لجوں سے پچا س کروڑ روپے کے عوض ڈگر ی لیکر آنے والا ڈاکٹر دیہا تی علاقے میں غریب اور نا دار بیمار کا علا ج کیوں اور کس طرح کرے گا ف۔یمیل میڈیکل آفیسروں کے بارے میں رپورٹ کے اندر ایک اور تشویشنا ک با ت لکھی گئی ہے بات یہ ہے کہ وہ شادی ہوتے ہی اپنے پیشے کو چھوڑ دیتی ہیں ایک اور انکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستا نی ڈاکٹروں میں ملک چھوڑ نے کا رجحا ن دیگر پیشوں کی نسبت زیا دہ ہے ہر تیسرا ڈاکٹر ملک چھوڑ کر با ہر جاناچا ہتا ہے اگر پوری رپورٹ کا اردو ترجمہ کیا گیا تو اور بھی کئی ایسے حقا ئق سامنے آئینگے جن کو ہم جا نتے ہیں مگر بتا نہیں سکتے مثلا ً یہ کہ 70فیصد یو نین کونسلوں میں 15000کی آبا دی کیلئے ایک بھی ڈاکٹر یا نرس نہیں 80فیصد تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتا لوں میں علاج کی بنیا دی ضروریا ت دستیاب نہیں سی ٹی سکین، ایم آر آئی، کلچر وغیرہ کیلئے ایمر جنسی مریضوں کو 300کلو میٹر دور بھیجا جا تا ہے اگر چہ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے ہمارے نظام صحت کا بھا نڈا پھوڑ کے رکھ دیا ہے مگرا س رپورٹ کی روشنی میں اصلاح احوال کی کوئی امید نہیں وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے  ہمارے ہاں فائل پڑھنے، مشاورت کرنے اور بنیا دی مسائل سے آگا ہی حا صل کرنے کا کلچر نہیں ہے اس لئے زندگی کے ہر شعبے میں بنیا دی مسائل پر تو جہ دینے کا رواج اور دستور نہیں رہا محکمہ صحت کو سما جی شعبے کا اہم محکمہ قرار دیا جا تا ہے سما جی شعبے کے کا م کا بڑا حصہ اس شعبے میں انجام پاتا ہے ایک سرکاری ہسپتا ل آر ایچ سی مستوج کو جاپان کی حکومت نے ایکسرے پلانٹ کا عطیہ دیا یہ پلانٹ 22سال استعمال کے بغیر پڑا رہا 22 سال بعد ایک غیر سر کاری تنظیم نے اس پلا نٹ سے کا م لیا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتال چترال کو 2011ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم نے کچرا جلانے کا پلانٹ انسی نیر یٹر (Incinerator) عطیہ دیا گذشتہ 10سالوں سے استعمال کے بغیر پڑا ہے اس کی تکنیک سے واقفیت رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ ایک سال بعد یہ پلا نٹ قابل استعمال نہیں رہے گا اقوام متحدہ کی سروے ٹیم کو اگر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتالوں کا دورہ کرا یا جا تا تو معلوم ہو تا کہ ان میں سے 50فیصد ہسپتا لوں میں گندے پانی کے نکا سی کا بندوبست نہیں مریضوں کے وارڈ سے ملحق کوئی واش روم قابل استعمال نہیں یہ بنیادی ضروریات ہیں ان پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔