آخر وہی ہوا جس کا خدشہ پچھلے چند دنوں سے مغربی انٹلی جنس ادارے ظاہر کر رہے تھے کہ کابل ایئرپورٹ پر دہشت گردی کا خطرہ ہے اور لوگوں کو احتیاط کے طور پر یہاں بھیڑ نہیں لگانی چاہئے۔داعش خراسان نے کابل میں خوفناک دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جن میں ایک درجن امریکی فوجیوں سمیت تقریبا دو سو افغان شہری مرچکے ہیں۔امریکہ نے بیس سال بعد افغانستان سے اپنی فوج نکالنے کیلئے یہ دلائل دئیے کہ اس نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں، القاعدہ کمزور و منتشر اور امریکہ محفوظ ہوگیا ہے اور امریکی فوج کے مزید نقصان سے بچنے کیلئے ایسا کرنا ضروری تھا مگر داعش نے سنگین خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس بار القاعدہ کمزور ہے اور طالبان کا اصرار ہے کہ وہ اس بار افغانستان میں کسی بین القوامی دہشت گرد کو پناہ لینے دیں گے نہ دہشت گردی کرنے دیں گے مگر داعش بھی اب ایک خطرہ بن کر سامنے آگئی ہے یعنی افغانستان اب ان کا نیا میدان جنگ بن سکتا ہے۔داعش اگرچہ کسی علاقے پر مستقل قبضہ نہیں رکھ سکتی مگر خطرناک حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا مطلب یہ ہے ابھی کچھ عرصے تک بدقسمت افغانیوں کو کسی بھی ناگہانی المیہ اور خونی مستقبل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ داعش نے فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے ہونے والا معاہدہ مسترد کیا تھا اور اب طالبان کے ملک پر قبضے کو بھی انہوں نے رد کردیا ہے۔ وہ شاید طالبان حکومت کیلئے کچھ وقت تک درد سر بنے رہیں گے مگر قوی امکان ہے کہ وہ افغان عوام، طالبان، چین، روس اور ایران وغیرہ کے اتحاد کے سامنے زیادہ نہیں ٹھہر سکیں گے۔ طالبان ترجمان نے کابل حملے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا کہ یہ حملہ اگرچہ امریکی افواج کے زیرنگرانی علاقے میں ہوا ہے مگر اس کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اگر داعش قصوروار نکل آئی تو طالبان انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف صدر بائیڈن نے داعش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اہلکاروں کی موت بھولیں گے اور نہ معاف کریں گے بلکہ جلد اس کا بدلہ لے کر رہیں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ طالبان اور امریکہ جلد مشترکہ دشمن داعش کے خلاف جنگ کرتے نظر آئیں گے۔دوسری طرف امریکی فوجی دہشت گردی کے خدشات کے باوجود اپنے ہمکار افغانوں کے انخلا کو اکتیس اگست تک مکمل کرنے کیلئے پریشاں و سرگرداں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کسی طرح وہ مزید نقصان سے بچتے ہوئے انخلا مکمل کرلیں۔ جبکہ طالبان اس وقت حکمران ہیں۔ وہ عوام کو ملک نہ چھوڑنے اور ائر پورٹ سے دور رہنے کی اپیلیں کررہے تھے مگر بہرحال سب بیرونی سفارتی عملے اور باہر جانے والے افغانیوں کی بلا امتیاز حفاظت بھی کررہے تھے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہیں اگر کوئی دہشت گرد واقعہ ہوگیا تو بدنامی ان کے حصے میں آئے گی۔ اس لیے ان پر الزام لگانے کا سرے سے کوئی جواز نہیں ہے۔داعش اور القاعدہ کی مضبوطی طالبان حکومت، چین، روس اور خطے کے دوسرے ممالک، امریکہ اور اس کے اتحادیوں سمیت کسی کے مفاد میں نہیں۔ غیر جانبدار ماہرین کہتے ہیں القاعدہ کے ارکان اب طالبان کے احکام مان رہے ہیں اور انخلا کے دوران انہوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ مگر اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے انتہاپسند ارکان داعش کی طرف جاسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کہہ چکا ہے افغانستان میں مختلف عسکریت پسند گروپوں سے تعلق رکھنے والے دس ہزارتک جنگجو پہلے ہی سے موجود ہیں۔امریکی سیکرٹری خارجہ اینٹونی بلنکن کے مطابق اگرچہ القاعدہ کے کچھ لوگ افغانستان میں موجود ہیں تاہم اس کی امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت بہت کم رہ گئی ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے اگر طالبان ان سے غافل ہوگئے تو یہ جلد دوبارہ منظم ہوسکتے ہیں۔ ادھر طالبان ایک تو دنیا سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں تاکہ عالمی امداد اور سرمایہ کاری جاری رہے اور پھر وہ جانتے ہیں مغربی ممالک القاعدہ اور داعش کے نام پر ان کو بلیک میل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے۔عراق اور شام میں اس کی شکست کے بعد داعش نے 2015 میں افغانستان میں کام کرنا شروع کیا جس میں کچھ انتہاپسند افغان طالبان اور غیر ملکی جنگجو شامل ہوئے۔ طالبان کے پاس دولت اسلامیہ کو نشانہ بنانے کی زبردست وجوہات موجود ہیں۔ ایسا کرنے سے طالبان غیر ملکی حکومتوں کی نظر میں اپنی ساکھ بہتر کرسکتے ہیں۔ تاہم دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنا اور ان پر قابو پانا آسان کام نہیں ہے اور یہ کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں۔ سب کو مل کر اس خطرے سے نمٹنا ہوگا۔