عمر پچپن کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم بھی تو دو دو سیڑھیاں پھلانگ کر تیسری منزل پر پلک جھپکتے ہوئے پہنچ جاتے تھے۔مگر اب تو ایک ایک سیڑھی پر دو دو پاؤں رکھ کر ڈاکٹر کی ہدایت پر اوپر جاتے ہیں۔ سات سالہ پوتا جو شاپر لے کر آگے چلا گیا ہوتا ہے۔اوپر اس سے پوچھا جاتا ہے اباکہاں ہیں۔ وہ کہہ رہا ہوتا ہے نیچے سیڑھیوں میں ہیں آرہے ہیں۔تیس سالوں تک تو عام طور سے آدمی کے مزے ہوتے ہیں۔کھاؤ پیؤ موج اڑاؤ۔جب بندہ آگے آگے جانے لگتا ہے۔اس کو مختلف قسم کی کم از کم ایک بیماری کے نرغے میں پھنسنا ہوتا ہے۔چالیس سا ل کی عمر تو احتیاط کر نے کی عمر ہے۔پھر پچاس کے بعد تو محتاط رہنے کی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔پھر ساٹھ کے بعد تو انتہائی محتاط ہو جانے کی ایج آ جاتی ہے۔گویا بونس کی ایج ہے۔اس عمر میں ہر طرف خیال کرنا پڑتا ہے۔”امید یں باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہو ں۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے“۔ گھر سے نکلتے وقت دروازہ لاک کر کے تالے کوکھینچتے ہیں مگر گلی کی نکڑ پر خیال آتا ہے تالا لگایا تھا کہ نہیں۔ بہت کچھ بھولنے لگتا ہے۔حتیٰ کہ ناک پر رکھی ہوئی عینک بھول جاتی ہے۔اگرچہ جوانوں کی نسبت بندہ بہت چالاک ہو جاتا ہے۔مگر اس کے باوجود دھوکے دینے والے ایسے آدمی کو بھی کبھی یوں چونا لگا جاتے ہیں کہ آنکھوں سے سرمہ نکال لیں۔بیٹوں بہوؤں میں خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔یہ سب کچھ آدمی کی فطرت میں شامل ہے۔ پوتوں نواسوں کا بے انتہا خیال رکھنا پڑ جاتا ہے۔اتنا خیال جتنا ان کے ماں باپ نہیں رکھتے۔اپنی جوانی کی بعض غلطیاں یاد آتی ہیں تو ہاتھوں کو کاٹتے ہیں کہ کاش وہ وقت واپس آجائے۔ مجھ سے ایسا کیوں ہوا۔ وجہ یہ کہ بندے نے اپنی زندگی میں بہت سے حادثات دیکھے ہوتے ہیں۔کچھ تو خود پر بیت گئے اور باقی لوگوں کو تکلیفات میں تڑپتے دیکھا ہو تاہے۔باقی ماندہ سن رکھے ہوتے ہیں۔گھرو الوں کو ہر وقت کی ہدایت دیتے رہتے ہیں۔ جس سے وہ تنگ بھی آ جاتے ہیں۔کیونکہ وہ اپنے بل میں ہوتے ہیں۔ان کو چوٹ آئے جائے تو پروا نہیں ہوتی۔ مگر اس عمر میں اگر کسی عمر رسیدہ کو چوٹ لگ گئی تو اس کو جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔حتیٰ کہ کوئی ہڈی خدانخواستہ پاؤں پھسلنے سے بھی ٹوٹ گئی تو پھرجلدی نہیں جڑنے کی۔کیونکہ میڈیکل کی زبان میں بندہ جتنا کم عمر ہوگا اتنا ہی اس کی چوٹ کے جلد ٹھیک ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔جب بندہ چالیس سے پلٹتا ہے تو اس کو بہت سی بچپن کی باتیں تک اس عمر او راس کے بعدکی ایج میں سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہیں۔بچوں کو جتنا سمجھاؤ وہ دل میں یہی کہتے ہیں کہ بابا کے دماغ پر برا اثر پڑا ہو اہے۔یہ بچہ لوگ اصل میں خود کسی حادثے کا تحربہ کرنا چاہتے ہیں۔پھر جا کر اس ٹریجیڈی سے یہ سبق سیکھتے ہیں۔جب خود پر نہ گذرے تو کیسے پتا لگے دردکی کیا کڑواہٹ ہے۔دادا اورنانا جی دادی نانی سب سمجھائیں گے۔ مگر ایک کان میں ڈال دوسرے سے نکال۔اس حد تک کہ اپنے مرحوم ماں باپ کی باتیں ان کے معنی اور مدعا کی سمجھ بڑھاپے میں آنے لگتی ہے۔مگر اس وقت پلوں کے نیچے سے ڈھیروں پانی گذر چکا ہوتاہے۔پھر یہی پانی سر سے بھی گذر جاتا ہے۔اس لئے آدمی اس عمر میں یہی چاہتا ہے کہ اب میں اس نئی نسل کو ہر قسم کے خطرات سے آگاہ کروں۔ مگر یہ سارا عمل خود رو ہوتا ہے۔جان کر کوئی ایسا نہیں کرتا۔جوان جانتے بوجھتے غلطی نہیں کرتے اور بڑے بھی ان کوانجانے میں نصیحت کرتے رہتے ہیں۔یہ سب کچھ عام طور سے ہوتاہے۔بعض حالات میں اس سے جدا بھی ہوتا ہے۔بعض لوگ چالیس سے پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔عین نوجوانی بلکہ بچپن میں ہی کسی بیماری کے گلے لگ جاتے ہیں۔پھر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ بندہ ساٹھ کے بعد بھی اپنے اخلاق درست نہ کرپائے۔وہ ایسی ہی عادات روا رکھتا ہے جو نوجوانی کے زمانے کی تھیں۔ اس عمر میں اگر بندہ ایسا ویسا ہو تو اپنی بدنامی خوب کروانے کا سبب بن جاتا ہے۔پھر اس کے بچوں اور اولاد وغیر ہ پر اس کے برے اثرات پڑتے ہیں۔اللہ پاک سب بزرگوں کو لمبی حیاتی دے اور تمام نوجوانوں کو ہدایت کی زندگی وسلامتی دے۔جوانی اپنی جگہ ایک نشہ ہے۔پھر اس نشے نے ٹوٹنا ہوتا ہے۔بزرگ سمجھاتے ہیں یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو۔ مگر الہڑ جوانیاں کہاں قابو میں آتی ہیں۔وہ کہتے ہیں ارے یار بابا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ اس لئے کہ یہ لوگ اپنے بل پر ایسا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ پھر وہ درست کہتے ہیں۔مگر جب جوانی کا سورج عین آسمان کے بیچ میں آکر زوال کے نصف دائرے میں مڑنے لگتا ہے تو اس وقت بڑے بوڑھوں کی باتوں کی سمجھ بھی آہستہ آہستہ آنا شروع ہو جاتی ہے۔جب جوانی میں چھلانگیں لگاتے پھرتے ہیں۔ پھر شادی وادی ہو جائے اور بچے ہو جائیں۔پھرکبھی راستہ چلتے ہوئے کسی نالی پر سے چھلانگ لگا کر گذرنا ہو تو اس وقت اچھلتے ہوئے احساس ہو تا ہے کہ اوہو میرا تو وزن بہت زیادہ ہو چکاہے۔اتنا کہ میں اب اس نالی پر سے چھلانگ کر اس پار قدم تک نہیں رکھ سکتا۔ مگر یہ وزن کی بات نہیں ہوتی۔یہ تو جوانی کے زور کی بات ہوتی ہے جو باقی نہیں ہوتا۔