دونمبرمیں ایک نمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صاحبان بات یہ ہے کہ اب کس کس سے لڑیں‘ اب تو حالت یہ ہے کہ جوخرید پائیں چپ کر کے بغل تلے داب کے گھر کی راہ لیں۔ اب کس کس سے بحث و تکرار کا میدان گرم کریں۔ کیا چیز ہے جو یہاں اپنی اصلی حالت میں فروخت ہو رہی ہے۔بڑی کمپنیاں دکانداروں تک کو بیوقوف بنا رہی ہیں‘ اب ہر گاہک کوتومال براہِ راست سپلائی نہیں کیا جاتا۔دکاندار سے ہم کو ملے گا۔بظاہر تو ہر چیز ٹھیک لگتی ہے۔مگر اس کو دکاندار کے پاس کاؤنٹر پر چیر پھاڑ کر چیک بھی تو نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی سِیل تو گھر ہی میں لا کر کھولیں گے۔ وہ مشروب ہو یا کچھ اور بلا ہو گھٹیا لیول کی نکل آتی ہیں‘ اب واپس بازار جائیں اور پھر کس کس دکان پر دھاوا بولیں۔ہم نے درجنوں سودے خرید رکھے ہوتے ہیں۔ مگر ہر مال گراں ضرور ہوتا ہے۔ لیکن اندر سے دو نمبر ہوتا ہے۔ اب ایک ایک دکاندار کے پاس واپس جائیں اور ایک ایک چیز کو سامنے رکھ کر اس کا نقص بتلائیں۔ مگر دکاندار نے تو یہی عذر پیش کرنا ہے کہ صاحب یہ تو کمپنی سے سیل بند ایسا ہی مال آتا ہے۔کوئی ٹوتھ پیس کیوں نہ ہو‘ کمپنی والے اس کی قیمت اگر بڑھا نہیں سکتے تو اس کے اندر پیسٹ کو اتنا کم کر دیں گے کہ آپ جب اس کو استعمال کرنے کو ڈھکن کھول کر برش پر ڈالیں گے تو معلوم ہوگا کہ آدھی ٹیوب تو خالی ہوا سے بھری ہوتی ہے۔اس طرح کی سینکڑوں چیزیں ہیں جو بازارمیں دستیاب ہوتی ہیں۔جن میں بچوں کے پاپڑ وغیرہ کے پیکٹ بھی ہوتے ہیں۔جو باہر سے بھرے پُرے نظر آئیں گے‘اتنا کہ ان کو ہاتھ لگا کر دبا کر بھی آپ کو اندازہ نہیں ہوگا کہ اس کے اندر کتنی چھیلی ہوئی مونگ پھلی بھری ہوئی ہے۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ گھر میں آکر جب کھولیں گے تو جیسے بڑے پیکٹ میں گن کر دانے ڈالے ہوتے ہیں۔بندہ بھاگ کر کہاں جائے‘ پورے کا پورا معاشرہ اسی بدحالی کا شکارہے‘یہی دونمبری تمام کاروباروں میں جاری و ساری ہے۔کون سی چیز ہے جو آپ سوچیں اور اس میں دو نمبری ہوئی نہ ہو۔ اگر جن چیزوں میں اس قسم کی دھوکہ دہی کا انداز نہ ہو یا نہ ہو سکے تو وہ چیز پھر دوسرے حربے کے طور پر مہنگی کردیتے ہیں۔مگر مہنگی ہوگی پھر اندر دانتوں کی ٹیوب آدھی خالی ہوتو بندہ غسلخانے میں سب کام چھوڑ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر ہمارے اس معاشرے کا کیا ہوگا۔ کھانے کی کوئی چیز لیں ہر چیز میں ناخالص مواد اور دونمبر چیزیں شامل ہوں گی۔ حتیٰ کہ اگر آپ گھر میں توے یا تندوری پر روٹی پکائیں گے تو اس میں بھی پہلے تو برکت نہ ہوگی اور پھر اسے کھانے میں ہزار طرح سے الرجی محسوس ہوگی۔ کیونکہ وہ روٹی بھی گھنٹہ بھر چنگیر میں یونہی پلے کے اندر دبی رہ کر بھی گتے کی طرح سخت ہو جاتی ہے۔گویا آٹے تک میں دو نمبری ہے‘سنا ہے کہ سوکھی روٹیوں کو دوبارہ سے برادہ کر کے اس کے پاؤڈر کو فائن آٹے کا نام دیتے ہیں اور مہنگے نرخوں بیچ دیتے ہیں۔ایک ایک چیز کا نام لیا جا سکتا ہے۔مگرایک ایک چیز کانام لینے میں بہت پردہ نشینوں کے نام بے نقاب ہو جانے کا ڈر ہے۔حتیٰ کہ بعض انڈے بھی سنا ہے کہ چائنا کے بنے ہوتے ہیں۔اب توبازارسے جو چیز خریدو اول تومہنگی ہوگی پھر اس پر شک پڑے گا کہ جانے اصلی بھی ہے کہ نہیں۔ پہلے پہل میڈ ان امریکہ کی الیکٹرانک چیزیں آتی تھیں۔پھر جاپان کی بنی ہوئی چیزوں نے راج کیا۔ بعد میں کہا جانے لگا کہ یہ تومیڈ ان ملائیشیا ہے۔کیونکہ جاپان میں مزدوری مہنگی ہے۔کارخانہ والوں نے اپنے کارخانے ملائیشیا میں لگا رکھے ہیں۔ وہی جاپانی مال اب ملائیشیا سے آتاہے۔مگر ہم بھی سادہ لوح قوم ہیں۔کتنا جلد ی ہم کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔پھر جتنا جلدی ہم احمق بنتے ہیں اس سے زیادہ جلدی میں ہم اس کے اصلی ہونے کی دلیلیں دیتے ہیں۔پھر اس کے بعد چائنا کا زمانہ آیا۔الیکٹرانک چیزیں سستی تو ملنے لگیں۔مگر ان میں بھی اصلی چائنا اور دو نمبرچائنا اور پھرتین نمبر چائنا مال بکنے لگا۔ لوگ ہیں کچھ پیسے بچالینے کی خاطردھڑا دھڑ وہی دو نمبر چیزیں خرید تے ہیں۔ جن کے بارے میں اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ یہ اتنا چل نہیں سکے گی۔ مگر ہم خرید فرماتے ہیں‘پھر کوئی اعتراض کرے تو عرض کرنے لگتے ہیں کہ آپ کا خیال غلط ہے۔یہ تو اصلی سے زیادہ اچھی طرح بنائی گئی ہے۔دکاندار تو اپنی چیز کے فروخت کرنے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دے گا‘ کہے گا کہ اجی جاپان او ر ملائیشیا کا زمانہ گیا‘ اب تو چائنا نے سب کو مات دے دی ہے۔وہ بھی غلط نہیں کہتے‘اس لئے کہ خود امریکا میں چائنا ٹاؤن ہیں۔مراد چائنا کے مال کی مارکیٹیں ہیں۔