امریکہ‘طالبان تعلقات کا مستقبل۔۔۔۔۔۔۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانستان سے سفارتی تعلقات بحال رکھیں۔امریکہ شکست خوردہ حالت میں یہاں سے نکل چکا ہے مگر اس خطے میں دہشت گردی کے سدباب اور تزویراتی مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ مستقبل کے تعلقات پر تمام مواقع کا جائزہ لے اور ایک ایسا طریقہ اختیار کرلے جس میں اس کا، خطے اور دنیا بھر کا فائدہ ہو۔امریکہ کے پاس طالبان سے متعلق کئی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ طالبان حکومت کا مکمل بائیکاٹ کرلے، اپنا سفارت خانہ کابل میں بند کرلے، اس پر خود پابندیاں لگائے اور اقوام متحدہ سے لگوائے، امریکی بینکوں میں پڑے افغانستان کے اثاثے ضبط رکھے، اپنے اثرو رسوخ کے ذریعے اس کو انسانی امداد کے راستے مسدود کردے اور طالبان کے خلاف لڑنے کیلئے ان کے مخالفین کی ہر ممکن مدد کرتا رہے۔دوم، کہ یہ طالبان کے حوالے سے غیر جانبداری اختیار کرتے ہوئے مکمل لاتعلق ہو جائے اور افغانستان کے مستقبل کا معاملہ افغانوں اور خطے کے ممالک پر چھوڑ دے۔سوم، کہ یہ طالبان حکومت کو تسلیم کرلے، اپنا سفارت خانہ کھلا رکھے، اس سے بلاواسطہ رابطہ اور بات چیت جاری رکھے، امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے مالی وسائل نئی حکومت کے حوالے کردے اور افغانستان کی تعمیرِ نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ چہارم، کہ امریکہ نہ طالبان کے ساتھ مکمل دشمنی کے راستے پر اور نہ ان کو تسلیم کرنے اور ان سے خوشگوار تعلقات رکھنے کے راستے پر چلے بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرے۔ یعنی محدود سفارتی موجودگی رکھے، طالبان سے بلواسطہ رابطہ جاری رکھے، افغانستان کی محدود ممکن مدد کرے اور پاکستان، روس اور چین کے ساتھ ماسکو ٹرائیکا پلس میں مل بیٹھ کر افغانستان میں امن و ترقی کیلئے کوشاں رہے۔پہلا راستہ(یعنی طالبان حکومت کی مسلسل مخالفت کی پالیسی)امریکہ، افغانستان، خطے اور دنیا سب کیلئے نقصان دہ بلکہ خطرناک ہے۔ اس کے نتیجے میں مستقبل میں خطے میں بدگمانیاں، نفرتیں اور پریشانیاں موجود رہیں گی۔ افغانستان کی مالی پریشانیاں طالبان حکومت کو دوسرے اور ممکن ہے کہ خطرناک، ذرائع آمدنی کی طرف راغب کریں، افغانستان میں خانہ جنگی اور بدامنی ہوگی، طالبان حکومت کمزور ہوگی اور افغانستاں کے کچھ حصے ان کی عمل داری سے نکل جائیں گے تو وہاں ممکن ہے دہشت گروہ اپنے تربیتی مراکز کھول لیں جس کے نتیجے میں دنیا پھر خطرے سے دوچار ہوجائے، انسانی امداد بند ہوگی تو افغانستان میں غربت اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ طالبان بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سازشوں، ہتھکنڈوں، پابندیوں اور مخالفانہ اقدامات کی وجہ سے ردعمل کا شکار ہوجائیں اور پھر کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے وہی کریں جو ان کی من میں آئے۔ مگر اس پالیسی سے وابستہ خطرناک نتائج اور مضمرات کو دیکھتے ہوئے صدر بائیڈن کی انتظامیہ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ امریکہ کو پھر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیں گے۔ یورپی ممالک بھی امریکی پالیسی سے ہٹ سکتے ہیں۔ پھر طالبان نے سب کیلئے معافی اور دنیا کے ساتھ چلنے کا اعلان کیا ہے اور تمام ممالک کو یقین دلایا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو برداشت کیا جائے گا اور نہ کسی کو یہاں سے کسی بھی ملک کے خلاف دہشتگردی کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے انخلاء کے دوران امریکی شہریوں پر حملے نہیں کیے اور وہ معاہدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ان کی حکومت کو تسلیم کرلیں۔ اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنا طالبان کی اس کی نظر میں غیر جمہوری حکومت کو جواز دینے کے برابر ہوگا تو امریکہ ماضی میں بھی کئی ممالک میں ایسی حکومتوں کے ساتھ تعلقات رکھ چکا ہے۔دوسرا راستہ افغانستان اور طالبان حکومت بارے مکمل غیر جانبداری یا لاتعلقی بھی خطے کے مفاد میں نہیں ہے، یہ امریکہ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ امریکہ کی جانب سے خود غرضی کی انتہا ہوگی کہ یہاں مسلح مداخلت کرکے مسائل پیدا کیے اور اب خطے کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کر چلا گیا، اس طرح امریکہ کے کھربوں ڈالر کا خرچہ، ڈھائی ہزار فوجیوں کی ہلاکت اور بیس سال کی محنت ضائع چلی جائے گی اور خطے میں اس کے مفادات سے بھی اسے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اس راستے سے جڑے امکانات و اثرات کی وجہ سے اس بات کا کم امکان ہے کہ امریکہ یہ راستہ چنے گا۔ تیسرا راستہ یعنی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے، طالبان سے بلاواسطہ رابطہ جاری رکھنے اور افغانستان کی تعمیر نو میں مدد دینا ہے،اس میں امریکہ، افغانستان، خطے اور دنیا کیلئے کئی فوائد مضمر ہیں مثلا کہ امریکہ سفارت کاری اور مذاکرات سے وہ کچھ حاصل کرسکے گا جو وہ جنگ سے حاصل نہ کرسکا، انسانی امداد اور تعمیر نو میں مدد سے امریکہ کی اخلاقی ساکھ بحال ہوجائے گی، طالبان بھی بین الاقوامی برادری کے ساتھ چلنے پر آمادہ رہیں گے اور خطے میں بدگمانیوں اور الزمات کا سلسلہ ختم یا کم ہو جائے گا کیوں کہ سب مل بیٹھ کر فیصلے کیا کریں گے اور ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ یہ بہترین راستہ ہے اور طالبان بھی یہی چاہتے ہیں۔ طالبان ترجمان سہیل شاہین سے پچھلے دنوں پوچھا گیا کہ طالبان امریکہ کو دشمن سمجھتے ہیں یا دوست، تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ افغان عوام سے دوستی کی پالیسی اپناتا ہے تو اس کو خوش آمدید۔ اگر وہ دشمنی کی پالیسی اپنائے گا تو وہی جواب ملے گا۔“اب تک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں کہ امریکہ یہ راستہ چنے گا۔اس کے بعد چوتھا یعنی آخری راستہ دشمنی اور دوستی کی بجائے طالبان سے محدود سفارتی تعلق، بالواسطہ رابطہ اور تعمیر نو میں ممکن مدد جاری رکھنے اور خطے کے ممالک کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کا رہ جاتا ہے۔ امریکہ اس طرح کم سے کم افغانستان سے اپنے ہمکاروں کو بحفاظت نکال سکے گا۔ یہ راستہ کم مفید مگر موجودہ حالات میں قابل عمل لگتا ہے اور لگتا ہے امریکہ یہی راستہ اختیار کرے گا۔