افغا نستان کی صورتحال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوری دنیا کے ہزاروں ریڈیو اور ٹیلی وژن چینل‘ لاکھوں اخبارات اور کروڑوں سو شل میڈیا اکاونٹس پر اگر کوئی معاملہ زیر گر دش ہے تو وہ افغانستاان ہے۔ جہاں خلاف توقع خون خرابے کے بغیر تبدیلی آئی ہے اور اب عنقریب نئی حکومت دنیا کے سامنے آجائے گی۔طالبان نے اس دفعہ جس مفاہمت اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ امید پیدا ہونے لگی ہے کہ یہاں پر امن قائم ہو اور پورے خطے پراس کے مثبت اثرات مرتب ہوں۔ افغا نستا ن کے پا س سمندر نہیں بند ر گا ہ نہیں اس کی آمدن کا مستقل ذریعہ نہیں اپنے محل وقوع کی وجہ سے بیرونی دنیا پر انحصار کر تا آیا ہے اور عالمی طاقتیں اس کی محتا جی کا نا جا ئز فائدہ اُٹھا تی آئی ہے اس وجہ سے عالمی طاقتیں افغانستان میں افغا نوں کی مر ضی سے زیادہ اپنی مر ضی اور خو اہش کی حکومت دیکھنا چاہتی ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ افغا نستا ن کے اندر قبیلوں، قو موں کی تقسیم ان کے اتفاق اور اتحاد کی راہ میں رکا وٹ ہے یہاں سو ئٹزر لینڈ والا ماحول گذشتہ ڈھا ئی سو سا لوں کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا جہاں مختلف نسلوں، مختلف قوموں اور قبیلوں کے لو گ ایک دوسرے کو برداشت کر کے مل جل کر زندگی گذار نے کا طریقہ اپنا ئیں تین زبا نوں کو قومی زبان بنائیں جر من اور سو ئس مل کر ایک قوم ہو نے کا تا ثر دے سکیں افغا نستا ن میں شاید بہت ہی کم عرصہ ایسا گزرا ہوگا جہاں تمام قومیتیوں کے درمیان یکجہتی کا ماحول پایا گیا ہے، ورنہ اکثر آپس میں برسر پیکار ہی رہے۔ دشمنی جس طرح 1757ء میں گہری تھی 2021میں بھی اُسی طرح گہری ہے 1978ء کے انقلا ب ثور کے بعد قومی وحدت کی راہ میں ترقی پسند اور قدامت پسند کی نئی دیوار بھی حا ئل ہو گئی ہے چنانچہ ایک اور خلیج آکر بیچ میں حا ئل ہو ئی اس خلیج کو پا ٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس پس منظر میں مو جو دہ صورت حال کو دیکھیں تو ایسا نظر آتا ہے کہ مسئلے کی کنجی اگر کسی فریق کے پاس ہے تو وہ اب طالبان کی قیا دت ہے کسی اور کے پا س مسئلے کی کنجی نہیں اورنہ یہ کنجی کسی اور کے ہاتھ آسکتی ہے 15اگست کو یہ بات عجیب لگتی تھی کہ بیرونی مما لک سے اما رت اسلا می کی قیا دت کو مشورے کیوں دیئے جا رہے ہیں؟ بظاہر کہا جا رہا ہے کہ انسا نی حقوق کی ضما نت دی جا ئے عورتوں کو کام پر جا نے کی اجا زت ہو نی چا ہئیے لڑ کیوں کو سکولوں، کا لجوں اور یو نیور سٹیوں میں جا نے کی اجازت ہو نی چا ہئے اور اب تک ان باتوں کی ضمانت طالبان قیادت کی طرف سے دی گئی ہے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جوباتیں کیں وہ اس امر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ اب کے طالبان کا دور بہت مختلف ہے اور وہ عالمی برادری کے ساتھ چلتے ہوئے افغانستان کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے ہدف کو پانے میں سنجیدہ ہیں۔ا ب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کو پھر سے اکیلا نہ چھوڑے اور بحالی کے کاموں میں اس کی بھر پور مدد کرے۔