جنگ زدہ افغانستان سے ’خیرسگالی‘ کا پیغام آیا ہے جو وہاں ممکنہ امارات اسلامیہ قائم کرنے کی کوشش کرنے والے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا غیرملکی افواج کا انخلا مکمل ہونے پر خطاب ہے اور اِس میں کہا گیا ہے کہ ”امریکہ کی شکست افغانستان پر حملہ کرنے والوں کیلئے ایک سبق ہے۔“ یقینا افغانستان سبق آموز ہے اور یہ صرف امریکہ یا اِس کے اتحادی ممالک ہی کیلئے نہیں بلکہ ہمسایہ اور خطے کے ممالک کیلئے بھی اپنی اپنی جگہ اور اپنی اپنی قسم کی نصیحت رکھتا ہے۔ طالبان دنیا سے اچھے تعلقات اور بالخصوص امریکہ کے ساتھ بھی ”ورکنگ ریلیشن شپ“ چاہتے ہیں تاہم اِس سلسلے میں امریکہ اور مغربی ممالک کا رویہ محتاط ہے جنہوں نے فی الوقت طالبان کو تسلیم کرنے کے لئے تین شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ 1: انسانی حقوق کی پاسداری۔ 2: خواتین کے حقوق کی ادائیگی اور خواتین کیلئے یکساں مواقع اور 3: افغان سرزمین اور وسائل کا کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔ طالبان خود کو افغانستان پر مسلط نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کٹھ پتلی حکمراں بننا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عام معافی سے محتاط طرزحکمرانی تک اُنہوں نے ایسی عملی مثالیں قائم کی ہیں جن سے عوام کے خادم ہونے کے دعوؤں میں سچائی و صداقت عیاں ہوتی ہے۔ طالبان عہد رکھتے ہیں کہ وہ اسلامی روایات کی روشنی میں ہر طبقے اور ہر اقلیت کو آزادی اور خود مختاری دیں گے تاہم اُنہیں درپیش معاشی و اقتصادی چیلنجز اُس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک افغان قوم متحد ہو جائے۔امریکی اور نیٹو افواج کے ہاتھوں گزشتہ دو دہائیوں سے ادھیڑی‘ اجاڑی اور انسانی خون سے رنگین کی جانے والی افغان دھرتی پر طالبان کا راج واپس لوٹ آیا ہے جو عالمی برادری کے ساتھ امن و سکون سے رہنے اور سازگار تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند ہیں تو اِس خواہش کا سنجیدگی اور توجہ سے احترام کرنا چاہئے کیونکہ صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے‘خوش آئند صورتحال ہے کہ جہاں طالبان عالمی برادری کے ساتھ پرامن اور خوشگوار ماحول میں رہنے کا عندیہ دے رہے ہیں‘ وہیں امریکہ اور دیگر نیٹو اتحادیوں سمیت مختلف ممالک کی جانب سے بھی طالبان کے مستقبل کے طرزعمل کی بنیاد پر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور افغانستان میں امن کی مکمل بحالی کیلئے کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں افغانستان کے امن کے حوالے سے پاکستان کا کردار بلاشبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس پر امریکہ بھی تکیہ کر رہا ہے اور وہ امن عمل میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کا ہاتھ بٹانے کا خواہش مند بھی ہے۔ اس لئے ہمیں بہرصورت طالبان اور بیرونی دنیا کے مابین رابطے کے پل کا کردار ادا کرنا ہے۔ اس معاملہ پر پاکستان کی قومی خارجہ پالیسی میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر پاکستان اِس وقت گومگو کی کیفیت میں افغانستان کے ساتھ کھڑا نہ ہوا اور وہاں قیام امن کی کوششوں کیلئے کسی سیاسی حل تک پہنچنے میں کردار ادا نہ کیا تو طالبان کیلئے وسیع البنیاد حکومت بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ ماضی کے تجرابات سے عیاں ہے کہ افغانستان کسی ایک لسانی گروہ کا گھر نہیں اور نہ ہی یہاں لسانی برتری کی بنیاد پر حکومت لمبے عرصے تک غیرمتنازعہ رہ سکتی ہے۔