اب جب کہ طالبان حکومت کے خدوخال واضح ہونے لگے ہیں اور دنیا بھر میں طالبان حکومت کے حوالے سے سفارتی سرگرمیاں عروج پر ہیں، امریکہ کا شکست خوردگی کی حالت میں کابل سے انخلاء کی گونج جاری ہے،امریکہ نے طے شدہ ڈیڈلائن سے ایک روز قبل ہی کابل سے اپنا انخلا مکمل کر لیا۔کابل ایئرپورٹ سے محو پرواز ہونے والی آخری امریکی فلائیٹ میں سوار ہونے والے آخری امریکی فوجی کوئی اور نہیں بلکہ 18ویں ایئربورن کور کے کمانڈر میجر جنرل کرس ڈوناہیو تھے جو وہاں سے امریکی ایئرفورس کے سی17ایئرکرافٹ پر بوجھل قدموں کے ساتھ سوار ہونے کے بعد روانہ ہو ئے۔ اس آخری فلائٹ کے ساتھ ہی 11 ستمبر کے حملوں کوجواز بنا کر شروع ہونے والی 20 سالہ امریکی مہم جوئی اختتام پذیرہو گئی۔امریکہ کی بیرون ملک لڑی جانے والی اس طویل ترین جنگ میں تقریبا 50 ہزار افغان شہری، 2500 امریکی فوجی، 66 ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکار، 457 برطانوی فوجی اور 50 ہزار طالبان و دیگر امریکہ مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔یہ طویل جنگ چار امریکی صدور کے عرصہ صدارت میں لڑی گئی جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ پر دوکھرب امریکی ڈالرز خرچ ہوئے جو افغان سکیورٹی فورسز پر ہونے والے اخراجات کے علاوہ ہیں افغانستان سے امریکی افواج کی شکست خوردگی کے عالم میں انخلا کاایک اور افسوس ناک پہلو بیس سالہ تباہی وبربادی کے علاوہ امریکی افواج کاانخلا کے وقت بھی افغانوں کو خاک وخون میں لتھاڑ کرجانا ہے جس کی تازہ ترین مثال کابل کے ہوائی اڈے کے قریب ہونے والا بدترین دھماکہ ہے جس میں لگ بھگ ڈیڑھ سوبے گناہ افراد جان بحق اوربیسیوں زخمی ہوئے۔ اس دوران امریکی صدرنے انتہائی غم وغصے اور افسردگی کے انداز میں اس حملے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے اور ان مجرموں سے انتقام لینے کا اعلان کیا ہے تو اگلے ہی لمحے ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا کے مصداق مغربی میڈیا دنیا کو یہ باور کراتے ہوئے بھی پایا گیا کہ اس بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ دولت اسلامیہ کے ایک اہم کمانڈر کو نہ صرف مشرقی افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیاگیا ہے بلکہ اسی روزایئرپورٹ کے قریب داعش کے ایک اور مشتبہ حملہ آور کونشانہ بنانے کی آڑ میں ایک بار پھر نہتے اور بے گناہ افراد کو بھی نشانہ بنایاگیا جن میں کئی معصوم اور کمسن بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کی افراتفری کی حالت میں نکلنے پر جہاں اتحادی ممالک بشمول جرمنی اور برطانیہ تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں وہاں خود امریکہ کے اندر بھی حکومتی صفوں کے علاوہ اپوزیشن کی جانب سے انخلا کے حوالے سے جو بائیڈن کے عجلت میں کئے جانے والے فیصلے کو ہدف تنقید بنایاجارہا ہے۔امریکہ کے سابق وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں افغانستان سے بے سروسامانی اور کامیاب نتائج کے بغیر انخلا کو امریکی شکست سے تعبیرکرتے ہوئے اسے امریکہ کیلئے ناقابل تلافی نقصان قراردیا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے بھی امریکی کمانڈر جنرل مارک ملی کو کابل سے امریکی افواج اور شہریوں کے غیر محفوظ اور بدانتظامی کے شکار انخلا کا زمہ دار قراردیتے ہوئے ان سے اس ناکامی پر بازپرس کا عندیہ دیا گیاہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن نے کہا ہے کہ باگرام ایئرپورٹ کی بجائے کابل ایئرپورٹ سے امریکی افواج اور شہریوں کے انخلا کا فیصلہ افغانستان میں متعین امریکی افواج کے کمانڈر جنرل مارک ملر نے کیاتھا یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ محض پندرہ دنوں میں ایک ایئرپورٹ سے ہزاروں پروازوں کے ذریعے قریبا دولاکھ افرادکاہنگامی بنیادوں پرافراتفری کے عالم میں انخلا معمول کی بات نہیں ہے۔اسی طرح یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس عرصے میں جہاں طالبان نے انخلا کے عمل میں طے شدہ معاہدے کے تحت کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی وہاں پاکستان نے بھی انخلا کی طے شدہ ڈیڈ لائین پر امریکہ اور طالبان کے درمیان پیدا ہونے والی کسی ممکنہ بدمزگی سے دونوں فریقین کوبچانے میں جس ڈپلومیسی اور ثالثی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقررہ ڈیڈ لائین کے اندر اندر انخلا کا عمل مکمل کرنے میں جو سپورٹ فراہم کی اس کو سراہا جانا چاہئے۔