روشنی اے روشنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید یہ واحد ملک ہے جہاں روزانہ ایک نیا قانون بن رہا ہے  اور یہ وقت کی ضرورت کے تحت ہورہا ہے کہ نت نئے جرائم سامنے آنے پر اس کیلئے قوانین بھی بنانے پڑتے ہیں۔دوسری طرف یافتہ ممالک  ہیں جہاں نئے قانون نہیں بن رہے۔بس جو بن گئے ہیں وہاں کے عوام ان پر عمل پیرا ہیں۔ مگر ہمارے ہاں وہ شعورکچھ نہیں جو ترقی کی دوڑ میں آگے نکل جانے والے ملکوں میں موجود ہے۔ وہاں عوام خود بھی حکومت کے بنے بنائے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔یہاں کا حال اور ہے وہ یہ کہ جتنے قانون اب تک بنے ہیں۔ ان قوانین کے اوپرتین گنا قانون اور بھی بنا لو۔ لیکن ہمارے عوام کوکون اس طرف توجہ دلائے گا کہ یہ قوانین صرف کتابوں کاپیوں میں لکھنے کیلئے نہیں ہیں بلکہ ان پرعمل کرنا ہے۔ہمارے ہاں جتنے قانون بن جائیں۔ ان قوانین کی پامالی کرنے والے رجھ کرپامالی کررہے ہیں۔نہ تو شرماتے ہیں نہ ڈرتے ہیں۔ہوا میں اُڑا دیتے ہیں۔کوئی حکم نیا ہوکہ پرانا۔ان کی روش وہی پرانی ہے۔وہ یہ ہے کہ پامال کرو روند ڈالو اس نئے قانون کو۔سزائیں بھی ملتی ہیں۔مگر یہ لوگ تو دوسرے کے برے انجام کو دیکھ داکھ کر بھی اس سے عبرت کا سامان نہیں لیتے۔ کیونکہ یہ سامان اتنا بھاری ہوتا ہے۔ جیسے قلی کی نا موجودگی میں ریلوے پلیٹ فارم پر ان کے سر منڈھ دیا گیا ہو۔ یہ اس بوجھ کو اٹھانے سے بہتر سمجھتے ہیں کہ کاندھا بچا کر پتلی گلی سے نکل جائیں اور کھل کھیلیں ہاتھ نہ آئیں۔۔سڑکوں پر دیکھیں یا اداروں میں جھانک لیں۔ وہ مایوسی کے مناظر ہیں کہ ایک آنکھ روتی ہے تو دوسری طنزکے مارے ہنس پڑتی ہے۔یہ آخر کر کیا رہے ہیں۔ماضی میں ایک بار سروے ہوا تھا۔ایک سو اٹھائیس ملکوں کا۔ اس میں ہمارا ایک سو بیس نمبر تھا۔کیونکہ ہم نے یہ توسیکھا ہی نہیں کہ ہم نے کسی قانون پر من و عن اوردل سے عمل کرنا ہے۔اس کواپنے اوپر پورے کے پورے طور لاگو کرنا ہے۔خوب دھجیاں اُڑتی ہیں اُڑائی جاتی ہیں اور ہم اُڑاتے ہیں۔جیسے بارش کے موسم میں پتنگے اڑتے ہوں۔جیسے امتحان ہا ل میں سے ہمارے اکثر طالب علم پرچہ دے کرنکلیں تو اپنی اپنی گھر جانے والی سوزوکی گاڑیوں میں سے نقل کے طور پر استعمال کی ہوئی بیکار پرچیاں بیچ سڑک کے ہوامیں اُڑا کر گراتے ہیں۔پریم چند کا ایک افسانہ ہے۔اس افسانے کانام روشنی ہے۔ کورس میں پڑھایا جاتا ہے۔اس میں ایک مکالمہ ہے۔ وہ یہ کہ ”تعلیم فی نفسہ ڈگریوں کا نام نہیں“۔ افسانہ نگا ر کامقصد یہ ہے کہ علم تو روشنی ہے۔اگر شعور حاصل نہ ہوا اور تعلیم حاصل ہوگئی کیاہوا۔بس مکھی پہ مکھی مارنے والی بات ہے۔جس طرح کے طالب علم چالیس سا ل پہلے تھے۔جو گواہ اب تک زندہ ہیں وہ ہم نوا ہیں کہ اسی قسم کے طالب علم آج بھی ہیں۔ پر وہ بھی ہیں جو نوٹس کے متوالے ہیں شار ٹ کٹ میں امتحان میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔کالج میں کتاب ایک بار پڑھ لیں تو چار مہینوں کے بعد کالج آنا چھوڑ دیں گے۔ ان سے کتاب کی دہرائی نہیں ہوتی۔اب توکورونا کے کارن ڈھائی سا ل سے تعلیم کا سلسلہ برباد ہے۔ اس سے پہلے دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر تعلیمی ادارے آئے روز بند ہو جاتے تھے۔ غرض ہمارے ہاں شعورکو پنپنے کا کسی طور موقع ہی نہیں ملا۔