شکست: سبق آموز پہلو

امریکہ نے بیس سال قبل افغانستان پر نائن الیون کو جواز بناتے ہوئے یلغار کی اور مطالبہ یہ تھا کہ طالبان کی میزبانی میں القاعدہ تنظیم کے رہنماؤں کو غیرمشروط طور پر امریکہ کے حوالہ کیا جائے جبکہ طالبان کی طرف سے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ امریکہ نے جنگی تیاریاں شروع کیں تو طالبان کے رویئے میں کچھ نرمی دیکھنے میں آئی کہ اِس کی طرف سے القاعدہ رہنما کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر رضامند ظاہر کی گئی۔ یہی ایک درمیانی راستہ ہو سکتا تھا لیکن جذبات اور ذرائع ابلاغ کے دباؤ میں آ کر صدر بش نے نیٹو ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کردیا جسے بش نے صلیبی جنگ سے تعبیر کیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے یہ مہم جوئی ”دہشت گردی کے خلاف“ جنگ کے نام سے کی گئی۔ اس میں پاکستان بھی شریک ہوا۔ جدید اسلحہ اور تربیت یافتہ افواج کی مدد سے افغانستان کو دنوں میں تاراج کر دیا گیا۔ طالبان اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ امریکہ نے وہاں من مرضی کی جمہوریت نافذ کر دی۔ دو مرتبہ کی آئینی مدت کے لئے حامد کرزئی وزیراعظم رہے‘ اگلی ایک مدت اشرف غنی نے مکمل کی اور اس کے بعد کی مدت ابھی ابتدائی مرحلے ہی میں تھی کہ امریکہ طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہو گیا۔ حالات کو ناموافق دیکھتے ہوئے اشرف غنی کابل سے صدارتی محل سے چپکے سے کھسک گئے۔ ان کو شاید اپنی جان کا خوف اور صدر نجیب جیسا بھیانک انجام نظر آرہا تھا۔ اشرف غنی کے فرار کے بعد افغانستان ایک بار بغیر کسی انتظام اور حکومت کے رہ گیا۔ طالبان نے جلدی پورے افغانستان پر تسلط حاصل کرلیا۔ طالبان افغانستان کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ انخلاء کے بعد امریکہ کا عمل دخل افغانستان سے ختم ہو چکا ہے۔ امریکہ کا افغانستان پر حملے کا مقصد اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنا یا اس کا خاتمہ تھا جو مقصد دوہزارگیارہ میں حاصل کر لیا گیا اور اِس کے ساتھ امریکہ کا افغانستان میں جنگ کا مقصد پورا ہو گیا‘ جس کے بعد سے اِسے واپسی کی راہ لے لینی چاہئے تھی مگر وہ مزید دس سال افغانستان میں صف آراء رہا اور جنگ کے جواز تلاش کرتا رہا۔ امریکہ کو اب سوچنا چاہئے کہ اس نے افغانستان کے محاذ پر کیا کھویا اور ایک طویل جنگ سے کونسی ایسی کامیابی حاصل کی جسے وہ فخریہ طور پر بیان کر سکے۔ علوم و فنون میں ترقی اور دانشوری کے آسمانوں میں پرواز کرنے کا دعویٰ کرنے والے امریکی فیصلہ ساز آج اپنی غلطیوں پر پشیمان ہیں کیونکہ افغان جنگ کی بھٹی میں تین کھرب ڈالر جل کر خاکستر ہوئے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں امریکی اور ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ افغانوں کا خون ہوا اور اِس تمام تباہی و بربادی کے بعد امریکہ کو اندازہ ہوا ہے کہ دنیا پر طاقت سے حکمرانی ممکن نہیں۔ نیٹو افواج کے ساتھ امریکی فوجیوں کے تابوت بھی افغانستان سے جانے کا سلسلہ آخری جہاز تک جاری رہا۔  پاکستان کو ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑا۔ سابق صدر بش ابھی زندہ ہیں‘ ان سے پوچھا جائے کہ صلیبی جنگ میں کتنی کامیابی حاصل کی اور کیا امریکہ نے اپنے جنگی جنون سے کوئی سبق سیکھا بھی ہے‘ اگر ہاں تو وہ سبق کیا ہے؟ امریکہ دنیا کے کئی ممالک میں مداخلت کئے ہوئے ہیں جبکہ اِس کی پشت پناہی سے بھارت کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے اُور حال ہی میں کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے مرحوم کی نماز جنازہ میں بھی کشمیریوں کو شرکت کرنے سے روکا۔ کشمیر سے منظرعام پر آنے والے پرتشدد واقعات کی عکسی جھلکیاں اور ویڈیوز اِنتہائی تکلیف دہ ہیں۔