پانی کی تلاش

وہ کون سا مسئلہ ہے کہ جس کا ہم لوگ شکار نہیں، ایک گاؤں میں زیرِ زمین پانی کافی نیچے چلا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم اگر کچھ کر سکتے ہیں تو وہ بہت آسان ہے۔مگر ہم نہیں کرتے نہ تو ہم کرناچاہتے ہیں۔ہم بیدردی سے جگہ جگہ پانی کے ضائع کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں۔ ہاتھ میں پانی کا پائپ تھاما ہوا ہے۔از خود نوٹس لے کر دکان کے آگے اور گھر کے آگے خواہ مخواہ کا چھڑکاؤ کر رہے ہوتے ہیں۔حالانکہ چھڑکاؤ کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔دیواروں پر پانی چھڑکیں گے۔ اینٹوں کو اگر بھگونا ہو تو بھگو کر پھران کو مزید گیلا کرنے کو ان پر خوب پانی نچھاور کریں گے۔ حالانکہ اس کا بھی آسان حل ہے کہ ایک ڈگی سی بنا دیتے ہیں اور اس میں اینٹیں ڈال دیتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے نسخے ہیں جن کو ہم آزما کر پانی کی بچت کر سکتے ہیں۔مگر ہم میں سے اکثر جو ناسمجھ ہیں جو خبریں نہیں دیکھتے وہ پانی کو ضائع کرتے ہو ئے از خو ددیکھتے ہیں، پانی کااس طرح ضائع کرنا تو خود میراہی نقصان ہے۔مگر کاش ہم ایک سمجھ رکھنے والی قوم کے افراد ہوتے۔جس کا اچھا برا خود اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس گاؤں میں گذر ہو تو نیا سماں دیکھنے کو ملتا ہے۔ہر گلی میں پانی کے لئے از سرِ نو بورنگ کی جا رہی ہے۔پہلے وہاں تو چالیس فٹ میں پانی نکل آتا تھا۔ مگر اب تو نئی بورنگ کرنے والے ساٹھ فٹ کی زمین کھود ڈالتے ہیں۔پھر اس کے علاوہ کہیں دوسری گلی میں اسی فٹ نیچے جایا جاتا ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ کہیں اس سے زیادہ کی کھدائی ہو رہی ہے لیکن یہ حال اسی علاقے کا نہیں۔ یہ تو ہر گاؤں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پھر یہ بھی کہ اب تو خبریں سن رہے ہیں کہ ہر گاہ کہ ارضِ وطن میں ہے یہی کیفیت ہے۔ بارش ہو تو کنوؤں اور باؤلیوں میں پانی آ جاتا ہے۔مگر اب کے تو ہمارے ہاں ایسا بھی نہ ہوا۔ وہی تنگی ترشی جو اس گرما میں رہی وہ اب کہ موسم نے اپنے خیمے اٹھا دیئے ہیں جاری ہے۔تربیلہ کی جھیل پانی سے لبالب بھر گئی ہے۔سرکاری سطح پر اس کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ مگر اس پانی سے بننے والی بجلی کی ترسیل میں جو رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں وہ ویسے کی ویسی ڈالی جا رہی ہیں۔ملک میں پانی کی کمی کا بہت سالوں سے سن رہے ہیں۔پانی کی کمی کا شکار جو ممالک ہیں ان میں ہمارے ملک کانام بھی لیا جا رہاہے۔مسئلے کے اوپر ایک اور مسئلہ ہے جس کاہم لوگ شکار ہیں۔پانی کی تلاش تو ایسے ہے جیسے سونے کی تلاش کے لئے کچھ جنونی لوگ خواہ مخواہ کی زمینیں کھودرہے ہوتے ہیں۔ کراچی میں پانی کا مسئلہ تو دہائیوں سے موجود ہے۔ وہاں تو لوگ صاف پانی خرید کر گھر میں بھرواتے ہیں۔ یہاں بھی یہی عالم ہے کہ اب بھلے چنگے پانی کے ہوتے سوتے منرل واٹر کی بوتلوں پر بوتلیں ختم ہو رہی ہیں۔پھر کون سی چیز یہاں سستی ہے۔لاہور پنجاب میں ذہن کے گھوڑے دوڑاؤ پانی کی کمی کارونا آنسوؤں سے رویا جا رہا ہے۔یہا ں زیر ز مین جو پانی چالیس فٹ سے آتا ہے اس میں مٹی اور کیچڑ بھی ہوتا ہے۔لوگ مجبور ہیں کہ نئی بورنگ کے لئے اس سے زیادہ نیچے جا کر سچا اور صاف پانی نکال لائیں۔ پانی کی خرابی سے ہی کتنے لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔جن کی ایک بیماری پھر دوسری بیماری میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انسان ہو اور صاف پانی نہ پی سکے یہ بڑا المیہ ہے۔صحراؤں میں ایسے جوہڑہیں جہاں رکے ہوئے پانی میں ایک طرف جانور اورکتے پانی پی رہے ہوتے ہیں۔ پھر دوسرے کنارے اسی پانی کو انسان گیلن میں ڈال کر اپنے پینے کولے جا تے ہیں۔یہاں کتنے ڈیم ہیں تربیلہ ہو یا کوئی اور ڈیم ہوں۔ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ہر طرف اگر پانی آ جاتا ہے تو بھلے آئے۔مگر بجلی نہیں آتی۔ جو ں جاتی ہے پھر اس کے انتظار میں آنکھیں سفید ہونے لگتی ہیں۔خدا کاشکر ہے کہ اب موسم اچھا ہونے لگا ہے اور مائل بہ سردی ہے۔ایسے میں لوگوں کا گذارا پنکھے کے تلے ہو ہی جاتا ہے۔ کراچی کے لوگ اگر پشاورآئیں تو اور پشاور کے اندرون کی گلیوں میں جاتے ہوں۔ ہمارا ایک مہمان محلہ مروی ہا میں سے گذر رہا تھا۔ اس نے صاف ستھرے پانی کو نالیوں میں سے گذرتے ہوئے دیکھا تو انتہائی افسوس کااظہار کیا۔ اس نے کہا ہائے یہ پانی اگر ہمیں کپڑے دھونے کو بھی مل جائے تو ہماری خوش قسمتی ہوگی۔ کیونکہ وہاں تو کھارا پانی ہے۔ اس نمکین پانی میں اگر کپڑے دھوئے جائیں تو صابن جھاگ ہی نہیں کرتا۔مگر ہمیں اس صاف پانی کی قدرکہاں ہے۔