افغانستان کے طالبان وہاں اپنی حکومت کا اعلان کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ شاید یہ سطور شائع ہونے تک ان کی حکومت بن چکی ہوگی۔ وہ ایک ایسی حکومت قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر قابل قبول ہو، پابندیاں ختم کر اور امدادی رقوم کی ترسیل شروع کروائے اور بیرون ملک پڑے افغانستان کے اربوں ڈالر حاصل کرسکے۔ تو کیا وہ کامیاب ہوسکیں گے؟طالبان نے پنجشیر کے سوا تقریباً پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے مگر طالبان کے لئے مختلف مسائل، مشکلات اور ملکی اور بین الاقوامی تقاضوں کے پیش نظر ایک فعال اور قابل قبول حکومت قائم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ انہوں نے ماضی کے برعکس اس بار نرمی، رواداری، معافی، عوام سے حسن سلوک، سہولیات کی فراہمی اور جامع حکومت کے وعدے کیے ہیں۔ وہ دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں مگر بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری، خراب معیشت، بدامنی کا خوف، ملک کا انتظام چلانے کے لئے ماہرین کی شدید قلت، نقد رقوم کی کمی، افغانستان پر عائد پابندیاں اور افغانستان کی تمام قومیتوں، عالمی مالیاتی اداروں اور مغرب کو قابل قبول حکومت کا قیام ان کے سامنے بڑے چیلنج ہیں۔اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے اور ایک ماہ بعد قحط اور ایک خوفناک انسانی بحران کا خدشہ ہے۔ امریکہ نے اپنیفیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں پڑے افغانستان کے تقریباََ7.7بلین ڈالر منجمد کر دیئے ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اس فنڈ کی ترسیل سے انکار کر دیا ہے جو افغانستان کو کورونا وباء سے نمٹنے کے لئے ملنا تھا۔ بین الاقوامی امداد کے بغیر نچلے درجے کے افغان سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ واضح رہے طالبان کو امریکہ نے دہشت گرد گروہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا ہواہے۔ افغانستان کے جو دس ارب ڈالرز کے مالی اثاثے دوسرے ملکوں میں پڑے ہوئے ہیں وہ انہیں جلد ملنے کی امید بھی کم ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول اور بڑے ممالک کی آشیرباد بھی ضروری ہے اور یہ بھی جلد ملنے کا امکان نہیں۔ البتہ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ویسٹرین یونین نے افغانستان کو انفرادی فنڈز ٹرانسفر شروع کرنے کا اعلان کیاہے اور اس طرح نقد رقم کی ترسیل شروع ہوگئی ہے۔طالبان نے امریکہ، نیٹو اتحادیوں، پڑوسی ممالک اور افغان گروہوں کے ساتھ جس طرح کابل کے مختصر محاصرہ کے دوران، امریکہ کے انخلاء اور اشرف غنی کے فرار کے بعد مفاہمت کے ذریعے حالات کنٹرول کئے اس کی وجہ سے امید بڑھ گئی ہے کہ وہ چین، روس، ایران اور پاکستان وغیرہ کی مدد سے مسائل پر قابو پالیں گے۔ انہوں نے ابھی واضح نہیں کیا کہ ان کے امیر شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ کی سرکردگی میں حکومت قائم ہوگی یا وہ ایران کے روحانی پیشوا کی طرح حکومتی عہدہ نہیں رکھیں گے مگر مقتدر اعلیٰ رہیں گے۔ ان کے شریک بانی عبدالغنی برادر، کمانڈر سراج الدین حقانی اور طالبان کے مرحوم رہنما محمد عمر کے بیٹے مولوی محمد یعقوب بھی توقع ہے نئی حکومت میں شامل ہوں گے۔ طالبان اگرچہ جامع اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کا وعدہ کررہے ہیں مگر ان کے ایک اہم کمانڈر عباس ستانکزئی نے کہا ہے کہ ہماری حکومت میں ایسا کوئی فرد شامل نہیں ہوگا جو پچھلے بیس سال میں کسی حکومت کا حصہ رہا ہو۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو پھر سابق صدر حامد کرزئی، افغان قومی مفاہمتی کونسل کے صدر عبداللہ عبداللہ اور دیگرسابق وزراء اور مشیر طالبان حکومت میں نہیں ہوں گے لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ پھر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا افغانستان کی ایک ایسی حکومت کو بخوشی تسلیم کرلے گی اور کام کرے گی جس میں مسٹر کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ جیسی غیرطالبان شخصیات شامل ہوں جن کے امریکی اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ یہ بھی واضح نہیں کہ سابق وزیراعظم گلبدین حکمتیار نئی حکومت میں شامل ہوں گے یا نہیں۔ انہوں نے اب تک طالبان سے اچھا تعلق برقرار رکھا ہے اور امکان یہ ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی حزب اسلامی حکومت کا حصہ ہوں گے۔ خواتین مبینہ طور پر کابینہ میں شامل نہیں ہوں گی مگر وہ کسی بھی شعبہ زندگی میں شرعی حدود کے اندر کردار ادا کرنے کے لئے آزاد ہوں گی۔طالبان کی جانب سے نامزد گورنر بینک دولت افغانستان نے کہا وہ ایک عملی مالیاتی نظام چاہتے ہیں۔جدید معاشی نظام اور بین الاقوامی تعلقات میں سودی لین دین بنیادی عنصر ہے لیکن ابھی واضح نہیں کہ طالبان حکومت سود بارے کیا پالیسی اختیار کرے گی۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکہ چلا گیا ہے اور افغانستان کا مستقبل اب چین کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اپنی معیشت کی بحالی اور تعمیرِ نو کے لئے چین کی مدد لیں گے اور تانبے کے وافر ذخائر چینی دوستوں کی مدد سے افغانستان کی ترقی کے لئے استعمال کریں گے۔ چین نے بھی طالبان کو تعمیر نو اور ملکی انتظام چلانے میں مدد کی پیشکش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ تمام فریق افغان عوام کی خواہشات اور بین الاقوامی برادری کی توقعات کا احترام کریں گے، ایک کھلا اور شراکت پر مبنی سیاسی نظام تشکیل دیں گے، اعتدال پسند پالیسیاں اپنائیں گے اور دہشت گرد تنظیموں سے رابطے ختم کر دیں گے۔امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا امریکہ کا طالبان کے ساتھ محدود رابطہ برقرارہے اور مستقبل کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کا لائحہ عمل جلد طے کیا جائے گا۔