شادیاں ہیں دھوم دھڑکے ڈھول تماشے بچوں کے پٹاخے چاولوں کی دیگیں چڑھتی ہیں۔ہاتھ سے ہاتھ ملتے ہیں۔گلے سے گلے ملا جاتا ہے۔ماسک کیا ہے۔اس کواب تو لوگ جانتے ہی نہیں۔اگر جانتے ہیں توپہچانتے نہیں۔حالانکہ ہسپتالوں میں مریضوں کارش ہے۔سکول کالج جلتی بجھتی بتیوں کی طرح کبھی بندکبھی کھلتے ہیں اور کبھی دوبارہ سے ان اداروں کے دروازوں کو تالے لگ جاتے ہیں۔ ماں باپ پریشان ہیں کہ بچے کو سکول میں داخل کروائیں یا نہ کروائیں۔ کیونکہ دو ایک ہفتے کہ بعد سکول کی چھٹیاں ہو جاتی ہیں۔ان کو مفت کی فیسیں بھرنا پڑتی ہیں۔اس لئے اب تو کورونا مکمل طورپرختم ہو تو وہ بچے کو سکول میں لے جاکر داخل کروادیں۔ بچوں کوہسپتال میں داخل کرنے سے اچھا کہ گھر میں بٹھا یا جائے۔ وہاں سکول مالکان سڑکوں پر آنکلے۔ ان کا رزق روزگارخراب ہو چکا۔جب فیس نہیں آئے گی تو ٹیچروں کو تنخواہ کہاں سے دیں گے۔ جو پرائیویٹ نوکریوں وا لے ہیں ان کو بھی مالکان ایک ایک کرکے نوکری سے نکال رہے ہیں۔وہ الگ سے روزگار کی فکر میں گھلے جا تے ہیں۔شادیاں ہورہی ہیں اور کثیر تعداد کے باراتیوں کے ساتھ جلوہ بکھیر رہی ہیں۔ مزے لے کرگانے بجائے جا رہے ہیں۔ ڈھولک ٹھنک رہی ہے۔رقص وسرود اورڈانس کی جلوہ افروزیاں ہیں۔مگر کسی کو سمجھ نہیں کہ ان کی تعداد میں مہمانوں میں کمی لے آئیں۔ گھروں میں شادی بیاہ کی پابندی کیا ہے۔انھوں نے اس بات کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔شادی ہالوں کو تالے ہیں اور شادی ہالوں کے مالکان کے لبوں پر شکوہ شکایت کے نالے ہیں۔لیکن دوسری جانب کورونا کی نئی نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں۔ہمارے ہاں اب تک تو چھ کروڑ کے قریب لوگوں نے ویکسین لگا لی ہے۔مگر باہر ممالک میں غیر ملکیوں نے کورونا ویکسین لگا کر بے فکری حاصل کرلی ہے۔ہمارے ہاں تو جو کورونا کاشکارہیں ان کی تعداد میں روز بروزاضافہ ہے۔مریض بڑھ رہے ہیں۔یہ تو وہ شمار ہے جو ہسپتالوں سے حاصل کیا گیا ہے۔اتنے لوگوں کوکورونا ہوا۔ اتنے جان سے گئے۔ اتنوں کے ٹیسٹ ہوئے۔ مگر جو لوگ ہسپتال میں نہیں آتے وہ بہت زیادہ ہیں۔ جو کوروناکی وجہ سے اپنے بسترپر آخری سانس لیتے ہیں وہ بھی ہیں اور زیادہ ہیں۔مگر ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوپاتا۔ ویکسین کے بارے میں کہا گیا ہے یہ گھروں میں لوگوں کولگائی جائے گی۔ کمشنر وں نے اس کا افتتاح بھی کیا اور گھروں میں بعض لوگوں کی لگائی بھی گئی۔ مگر سب کچھ ہوا کا رزق ہوا۔تصویریں ضرورنکالی گئیں۔ مگر اب تک بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دے رہی۔ان کو اگر اپنی موبائل سم کے بند ہوجانے کا ڈر نہ ہوتا تو یہ افراد ویک سنٹر نہ آتے۔ ان کو اگر شناختی کارڈکے بلاک ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو یہ کبھی ویکسین کے ٹیکے کی سوئی کے درد کو جسم و بازو میں برداشت نہ کرتے۔یہ وہ ہیں جن کو باہر ملک جانے کی تمنا نہ ہوتی تو یہ کورونا کی موڈرنا جیسی امریکہ کی ویکسین نہ لگاتے۔بیرون ممالک میں تو اس وائرس پر قابوپا لیا گیاہے۔ مگر اس کاکیا ہوگا کہ ہمارے ہاں سے جو لوگ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں سیر یا کاروبار یا کسی اور مقصد کے تحت جاتے ہیں وہ یہاں سے یہ متعدی مرض لے کر نہیں جائیں گے۔ اس کے سدباب کیلئے ہمارے اوپر پابندی لگائی ہے کہ ایک بھی نہیں آئے گا۔جس نے ٹیکہ نہ لگایا ہو اس کو اجازت نہیں۔اسی لئے تو برطانیہ نے ہمارے ملک کے شہریوں کو اس بیماری کے کارن ریڈ لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔وہاں جو پاکستانی برطانیہ کے شہری ہیں اس صورتِ حال کے پیشِ نظر قید کی سی صورتِ حال میں گرفتار ہیں وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں۔اگر پاکستان آئے تو آ سکتے ہیں۔مگرواپس جانے کیلئے ان کو بہت پاپڑ بیلنا پڑیں گے بہت سا خرچہ کرنا پڑے گا۔اسی لئے تو وہاں پھنسے ہوئے پاکستان لندن کی سرزمین سے قدم باہر نہیں نکالتے۔ان کو لندن میں قد م رکھنے سے پہلے قرنطین ہوناہوگا۔اپنا خرچہ کرناہوگا۔اگر فیملی میں جتنے افراد زیادہ ہیں اتناہی خرچہ زیادہ اٹھے گا۔ابھی تک جن شہریوں نے پاکستان میں ویکسین لگا لی ہے۔جن میں سے اکثر کو اپنی سم اور اپنا پاسپورٹ اور اپناشناختی کارڈ پیاراہے مگر صحت کیلئے انھوں نے ویکسین نہیں لگائی۔