زراعت کی بجائے صنعتوں کو ترجیح دینے کے نتائج ماضی سے زیادہ مختلف برآمد نہیں ہوں گے جبکہ صنعتوں کو 2 سال سے دی جانے والی مراعات کا حاصل وصول سب کے سامنے ہے اور اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ برآمدات کی بجائے درآمدات بڑھ رہی ہیں جن پر یقینا حکومت کی نظر ہوگی۔ قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر برآمدات کا تعلق صنعتوں میں استعمال ہونے والے خام مال اور صنعتی ضروریات (کیپیٹل سازوسامان) پر مبنی ہے کیونکہ بقول حکومت ”صنعتیں اپنی پوری صلاحیت سے کام کر رہی ہیں۔“ صنعتوں کے مقابلے اگر زراعت کو توجہ (مراعات) دی گئی ہوتیں تو آج صورتحال یکسر مختلف ہوتی کہ پاکستان سے برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہو رہی ہوتیں۔ حکومت نے ملک میں صنعت کاری کو فروغ دینے کیلئے گزشتہ دو برس کے دوران خام مال اور کیپیٹل اشیاء پر عائد اخراجات کم کئے ہیں اور اِس عمل کو ”پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے معقول حکمت عملی“ یا گیم چینجر کہا جاتا ہے لیکن ایسا کوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ہوا کہ جسے گیم چینجر کہا جائے۔ ملک کی درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں تقریباً تین گنا اضافے کے باعث رواں مالی سال کے دوسرے ماہ میں تجارتی خسارے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عبوری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارتی خسارے میں الٹا رجحان مسلسل دوسرے ماہ دیکھا گیا اور یہ گزشتہ سال اگست میں 1.74ارب ڈالر کے مقابلے میں بڑھ کر گزشتہ ماہ 4.05 ارب ڈالر ہوا ہے۔ تجارتی خسارے سے بیرونی پہلو پر دباؤ پڑسکتا ہے لیکن سرکاری عہدیداروں کا ماننا ہے کہ ترسیلات زر میں اضافے‘ برآمدات میں اضافے اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے دباؤ بڑی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی مالی سال 2018ء میں تجارتی خسارہ تاریخ میں سب سے زیادہ 37.7 ارب ڈالر ہوگیا تھا لیکن حکومتی اقدامات کے باعث مالی سال 2019ء میں یہ کم ہو کر 31.8ارب ڈالر اور مالی سال 2020ء میں 23 ارب ڈالر رہ گیا تھا تاہم پھر رجحان الٹا ہوگیا اور مالی سال 2021ء میں تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ تجارتی فرق گزشتہ سال دسمبر سے بڑھتا جارہا ہے‘ جس کی بڑی وجہ درآمدات میں تیزی سے اضافہ اور برآمدات کی نمو میں سست رفتار ہے۔ اگست میں درآمدی بل 89.9فیصد بڑھ کر 6.313 ارب ڈالر ہوگیا جو گزشتہ سال اسی مہینے میں 3.324 ارب ڈالر تھا۔ ماہانہ بنیاد پر درآمدی بل میں 12.7فیصد اضافہ ہوا۔ مالی سال 2021ء میں درآمدی بل مالی سال 2020ء میں 44 ارب ڈالر کے مقابلے میں پچیس فیصد سے بڑھ کر چھپن ارب ڈالر ہوگیا تھا۔تحریک انصاف کی حکومت کو تین برس مکمل ہوچکے ہیں‘تحریک انصاف کا شروع دن سے زور اس بات پر رہا کہ ملک کو اقتصادی حوالے سے مضبوط اور مستحکم بنایا جائے اور مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہئے لیکن باجود کوششوں کے اس مد میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ تجارتی خسارے میں ہونے والے اس اضافے کا بوجھ زرِ مبادلہ کے ذرائع پر بھی پڑ رہا ہے اور یوں گزشتہ مالی سال کے دوران حاصل ہونے والی ریکارڈ ترسیلات ِزر کی کامیابی تجارتی خسارے میں دب کر رہ گئی ہے۔ اِس صورتحال میں عملی اقدامات کرتے ہوئے تجارتی خسارے پر قابو پانے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کو تجارتی خسارے کی نذر ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر پاکستانی روپے پر دباؤ بڑھے گا اور رواں مالی سال میں اگر یہ 170 کی نفسیاتی حد عبور کر گیا تو اِسے واپس لانا مشکل ہوگا۔ لائق توجہ ہے کہ 9 مئی کے روز ایک امریکی ڈالر 151.17 روپے پر بند ہوا جبکہ 4 ستمبر کے روز (قریب پانچ ماہ) میں روپے کی قدر 167.22 تک جا پہنچی ہے اور اگر ایک سال کا فرق دیکھا جائے تو 4 ستمبر 2020ء کے روز انٹربینک ڈالرکی قدر 165.95 روپے تھی جو فی الوقت 167.22روپے ہے۔