مائنڈ سیٹ

غربت کے خلاف جنگ جیتنے اور عام آدمی کی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے وزیراعظم پہلے سے زیادہ پُرعزم دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ برسرزمین حالات حکومت کی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کی ناکامی ظاہر کر رہے ہیں کہ باوجود خواہش بھی ہر کوشش کے منفی نتائج بصورت پہلے سے زیادہ مہنگائی ظاہر ہوتے ہیں۔ رواں ہفتے وزیراعظم نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”نیا پاکستان جدوجہد‘ نظام اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا نام ہے اور یہ عمل شروع ہوچکا ہے‘ کمزور اور غریب طبقے کو غربت سے نکالنا حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔“ تاہم جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے عزم مصمم کے ساتھ وزیراعظم نے عوام سے شکوہ بھی کیا ہے کہ ”لوگ ٹیکس نہیں دیتے لیکن سہولیات چاہتے ہیں اور حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔“ بقول وزیراعظم لوگ جب ٹیکس جمع نہیں ہوگا تو حکومت عوام کو سہولیات کیسے فراہم کرے گی؟“ اُنہوں نے ایک عام فہم مثال بھی دی کہ لوگ جنت میں تو جانے کے خواہشمند تو ہیں مگر اِس کیلئے ضرورت یعنی اچھے اعمال کرنے کو ضروری نہیں سمجھ رہے!“ وزیراعظم کا مؤقف اور شکوہ اگرچہ کسی حد تک بجا اور منطقی ہے لیکن اس میں بھی زیادہ کردار مراعات یافتہ طبقے کا ہی ہے جس کو ٹیکس ادائیگی کا پابند بنانا ضروری ہے جہا ں تک عام آدمی کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی بالواسطہ ٹیکسوں میں بُری طرح جکڑا ہوا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہی مہنگائی کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ ایک عام آدمی اپنی مالی حیثیت کی شرح تناسب سے کئی گنا ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ یہ ٹیکس ماچس کی ڈبی سے لیکر موبائل فون کے ریجارچ اور پیٹرولیم مصنوعات جیسی ضرورت کے علاوہ بجلی و گیس اور ٹیلی فون بلوں کی صورت عائد ہیں۔ درحقیقت پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام ’غریب دوست‘ نہیں بلکہ ’امیر دوست‘ ہے اور ٹیکس وصولی میں سرمایہ داروں کو چھوٹ جبکہ غریبوں پر گرفت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں تک انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کا تعلق ہے تو صرف سرکاری‘ غیرسرکاری‘ نیم سرکاری ملازمین اور نجی کمپنیوں اور کارخانوں کا تنخواہ دار طبقہ ہی قابو آتا ہے جبکہ ہمارے ملک کا پیچیدہ ٹیکس نظام کھرب پتی صنعت کار‘ سرمایہ دار‘ جاگیردار کو ٹیکس قواعد سے آسانی کے ساتھ بچ نکلنے کا محفوظ راستہ دیتا ہے اس لئے بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عام آدمی کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو یہ چوری چھپی حقیقت نہیں کہ کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں سفر کرنے والے اور شاہانہ رہن سہن رکھنے والوں کی آمدنی کی نسبت متوسط و غریب طبقات سے زیادہ شرح سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ٹیکس وصولی ہو یا بالواسطہ و بلاواسطہ ٹیکس عائد کرنے کے نظام (محصولات سے حاصل ہونے والی قومی آمدن کا بندوبستی ڈھانچہ) خرابیوں کا مجموعہ ہے‘ جس کی خرابیاں دور کرنا متوسط و غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ اگر کوئی اپنی مالی حیثیت اور مالی سکت سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے اور اگر کوئی اپنی مالی حیثیت اور مالی سکت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کر رہا تو اِن دونوں صورتوں کا تعلق ’حکومتی کارکردگی‘ سے ہے۔