افغانستان پر طالبان کے تسلط کے بعد بھارتی حکومت پریشان اور مخمصے کا شکار ہے کہ ماضی کی پالیسی کے برعکس طالبان کو تسلیم کرلے یا ان کی مخالفت جاری رکھے اور یہ کہ کیا سفارتی روابط کے فائدے زیادہ ہیں یا مخالفت کی قیمت۔ طالبان کی فتح افغانستان سے نہ صرف بھارت کے سفارتی مفادات بلکہ 20 سال کی محنت اور ڈیموں، سڑکوں، سکولوں، ہسپتالوں، اور بجلی وغیرہ کے منصوبوں میں تین ارب ڈالر کی بھارتی سرمایہ کاری بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔ساتھ ہی اس پیش رفت سے بھارتی معاشرے کا تضاد بھی عیاں ہو گیا ہے۔ ایک طرف بھارتی حکومت طالبان سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری طرف ہندتوا کے علمبردار طالبان کو دہشت گرد کہہ رہے اور بھارتی مسلمانوں کیلئے طالبان کا نام گالی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ بھارت سرکار نے ابھی تک طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا تو پھر ہندتوا کے انتہاپسندوں کے خلاف مسلمانوں کو طالبان کہنے اور ان کی تذلیل کرنے کا کیا جواز ہے۔بھارت افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور پاکستان کو گھیرنے کی آس میں وہاں امریکہ نواز حکومت اور گروہوں پر سرمایہ کاری کررہا تھا اور طالبان کو پاکستان کا پراکسی گردانتے ہوئے ان سے کنارہ کشی اور ان کے خلاف پروپیگنڈا کررہا تھا مگر ایسے میں افغانستان پر طالبان کا تسلط قائم ہوگیا۔ اس میں بھارت کیلئے سبق تھا کہ وہاں طاقت کی سیاست میں فریق بن کر، طالبان مخالف گروہوں کا ساتھ دے کر اور طالبان سے دشمنی نبھاہ کر اس نے خود اس مصیبت کو دعوت دے کر غلطی کی ہے۔ اس کے بعد اسے وہاں مزید نقصان سے بچنے کیلئے افغان عوام اور طالبان سے معافی مانگنی چاہئے تھی، پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی اپنی ضد چھوڑ کر فوری طور پر باہمی مذاکرات شروع کرنے چاہئے تھے اور یوں پاکستان، روس، چین اور ایران کے ذریعے اور یا اسے خود طالبان سے تعلقات کار قائم کرنے چاہئے تھے مگر لگتا ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہے۔ وہ اب بھی شکست خوردہ امریکہ کے ساتھ سازباز کرنے، پاکستان پر نظر رکھنے اور طالبان کے حوالے سے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنا رہا ہے۔افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور اشرف غنی حکومت کی بقا اور طالبان کی شکست بارے بھارتی ارمانوں کا خون ہونے کے بعد دونوں غم شریک بھائی بن گئے ہیں اور اب دونوں پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا اور اسے دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس طرح کچھ رعایتیں حاصل کرسکیں۔ چنانچہ بھارتی خارجہ سیکرٹری نے پچھلے دنوں کہا کہ افغانستان کے حوالے سے بھارت اور امریکہ کی پالیسی ایک ہے۔ ہماری نظر اس بات پر بھی ہے کہ پاکستان افغانستان میں کیا کرتا ہے۔ ہماری طرح وہ بھی بڑی توجہ سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں بھی بڑی باریک بینی سے پاکستان کے اقدامات دیکھنا ہی ہوں گے۔بھارت نے پچھلی بار طالبان حکومت کا بائیکاٹ کیا اور ان کے مخالف شمالی اتحاد کا ساتھ دیا تھا مگر اس بار وہ ایسا نہیں کرسکے گا کیوں کہ ایک طرف روس اور چین، جن کے ساتھ بھارت کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں، طالبان کے ساتھ کھڑے ہیں، دوسری طرف بھارت کا نیا تزویراتی حلیف امریکہ یہاں ناکام ہوا اور طالبان سے پے درپے، حتی کہ کابل پر قبضے کے بعد اور انخلا کیلئے، معاہدے کرنے پر مجبور ہوا اور وہ اب خود اور اس کے نیٹو اتحادی اور یورپی یونین سب مستقبل میں طالبان کا بائیکاٹ نہ کرنے اور ان کے ساتھ کم از کم تعلقات کار رکھنے پر یکسو ہیں۔تیسری طرف بھارت افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے فوائد سمیٹنا چاہتا ہے اور اس کی کوشش ہے افغانستان سے اسے خطرہ نہ ہو۔ وہ افغان سرزمین پر اپنے مخالف جہادی گروہوں پر نظر رکھنا، وہاں پاکستان، چین اور طالبان کا اثر و رسوخ کم کرنا اور وہاں پاکستان مخالف عناصر کی سرپرستی و مدد کرنا اور افغانوں میں اپنے لیے خیرسگالی اور پاکستان بارے غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مزید برآں بھارت طالبان سے بہتر تعلقات کیلئے اس وجہ سے بھی کوشاں ہے کہ اسے پاکستان بارے بدگمانی ہے کہ وہ افغانستان کو اس کے خلاف استعمال کرے گا۔ یہ ایک بے بنیاد خدشہ ہے مگر بدقسمتی سے بھارت چونکہ یہی کچھ اب تک وہاں پاکستان کے خلاف کرتا رہا ہے تو اب پاکستان بارے بدگمانیاں رکھنے اور اس پر بے بنیاد الزام تراشیوں کے سوا اس کے ذہن میں اور کچھ آتا نہیں۔ چوتھی طرف حقیقت یہ ہے طالبان کے کوئی بین الاقوامی عزائم نہیں ہیں۔ اگر طالبان بھارت کو دوست نہیں تو دشمن بھی نہیں سمجھتے۔ پھر طالبان اور پاکستان کی قربت بھارت کے خلاف ہے اور نہ ہی اب تک طالبان نے بھارت کے خلاف کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے۔ طالبان کہہ چکے ہیں کسی ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانا اگرچہ ان کی پالیسی نہیں ہے مگر وہ کشمیر سمیت دنیا میں کسی بھی جگہ کے مسلمانوں کیلئے آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ طالبان ترجمان سہیل شاہین کے بقول ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور یہ کہیں گے مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں۔ آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے تسلط کے بعد بھارت میں مسلم سیاست دانوں، صحافیوں، علما اور پروفیسروں کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی اور دوسری انتہاپسند پارٹیوں کے ارکان کی نفرت انگیز مہم شروع ہوگئی ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا پر پہلے”پاکستان جا“ اور اب”افغانستان جا“ کی مہم جاری ہے۔مسلمانوں کیلئے جس طرح پاکستانی یا ’جہادی‘یا آتنک وادی کی اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں، اب مسلمانوں کو طالبان ہونے کا طعنہ دیا جارہا ہے۔اتر پردیش کے ایک مسلمان سیاستدان شفیق الرحمن برق کو افغانستان میں امریکہ کے خلاف جدوجہد کو انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی جیسا قرار دینے پر غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔پچھلے سال ”کورونا جہاد“کی مہم سے تبلیغی جماعت کو ہندوستان میں وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور”لو جہاد“کی مہم کے ذریعے ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں سے شادی کے خلاف تحریک چلائی گئی۔