بات پر واں زبان کٹتی ہے 

حیرانی یہ ہے کہ فرانزک لیبارٹریوں کے اپ ڈیٹ ہونے۔پھر اس کے کارگر اثرات کے باجود۔ٹی وی میڈیا اور سی سی فوٹیج کیمروں کی موجودگی۔ڈی این اے ٹیسٹ اور اس طرح کی جدید حسیات میں چاہئے تھا کہ جرائم کی روک تھام آسانی سے ہو جاتی۔ اگر رکاوٹ نہیں تو کم از کم کی بنیاد پر شرپسندی میں اب تک خاصی کمی آچکی ہوتی۔ اسمبلی میں نئے قانون پاس کروا کر سزاؤں میں اضافہ بھی ہو رہاہے۔ مگر غور سے کیا دیکھیں عام طور سے دیکھیں تو معلوم ہونا آسان ہے کہ جرائم کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے۔اگر اسی ٹیکنالوجی سے مجرمین فائدہ اٹھاتے تو اب تک دنیا جرائم کی آماجگا، پیدائش گاہ اور مستقل رہائش گاہ بن چکی ہوتی۔ شکر ہے کہ یہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی مجرمان کے قبضے میں نہیں۔لیکن افسوس یہ ہے کہ اس کے باوجود کیمروں میں چہروں کی صاف تشکیل میں بھی یہ مجرم صفت صاف بچ نکلتے ہیں۔بہت کم ہیں جو اب تک پکڑے جارہے ہیں۔ سٹریٹ کرائم میں اضافہ در اضافہ ہو رہاہے۔حالانکہ پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔پولیس کی نفری میں بھی آئے روز اضافہ ہو رہاہے۔ پھر ان کو دی جانے والی ٹریننگ میں بھی تواتر  سے بہتری آرہی ہے۔لیکن یہ ملزم اپنے اوپر مجرم کا لیبل لگانے میں رات دن کوشاں ہیں۔کہیں کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ یا تو قانون اور اس کی عمل داری میں کہیں بہت فاصلہ ہے۔یا پھر باغبانو ں کو باغ کی راکھی کرنے کی ٹریننگ صحیح طریق سے نہیں دی جا رہی۔جرائم بڑھ رہے ہیں۔ روزانہ ٹی وی دیکھ کر دل اُداس سا ہو جاتاہے۔موبائل کے مختلف گروپس میں آنے والی خبروں میں زیادہ تر ماراماری اور قتل چھینا جھپٹی‘غیرت کے نام پر قتل مقاتلہ‘ رشتہ نہ دینے سے انکار پر مرگ کا سودا اور اس طرح کے انواع و اقسام غیر مثبت کام معاشرے میں بہت تیز رفتاری سے ہو رہے ہیں۔لوٹ مار اور راستے میں کھڑے ہوکر شہریوں کو خالی کر لینا۔ کسی سے موبائل کسی سے کیش چھین لینا۔ پھر نہ دینے پرمزاحمت ہوتو قتل کر کے بھاگ جانا۔یہ آئے دن کامعمول ہے۔یہی ان مجرمانِ شہر کا اصول ہے۔پھر ایک شہر میں تو نہیں شہر شہر نگر نگریہی حال ہے یہی احوال ہے۔پھر یہ کیوں زیادہ ہوا۔اس پربھی سوچ بچار ضروری ہے۔جب سے معیشت کو داغ لگا ہے تب سے یہ صورتِ حال ابتر اور بدتر ہوئی جاتی ہے۔ کوئی اگر کہے کہ روٹی سب کو ملتی ہے۔کہاں سب کو ملتی ہے۔جو کوڑھے کے ڈھیر پر سے چاول اٹھا کر کھا رہا ہے وہ بوڑھا آدمی۔ اس کواگر روٹی ملتی ہوتی تو وہ یوں ڈھیر پر گھبرا گھبرا کر کیوں بیٹھاہوتا۔ سڑک کنارے بچے آم کے چھلکے منہ میں دبائے چوس رہے ہیں تو کوئی بات ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں شہر میں بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔جگہ جگہ بھکاری گاڑیوں کے آگے آ کر ہاتھ پھیلاتے ہیں۔سڑک پر جاتے ہوئے آپ کو سڑک کے نیچے جھگیوں میں مقیم بال بچے دار لوگ آسانی سے نظر آ جائیں گے۔ مدرسوں میں جا کر دیکھیں جہاں تعلیم حاصل کرنے کیلئے دور دراز کے علاقوں سے معصوم آکر ہزاروں کی تعداد میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کو روز پانی والی دال کے ساتھ روٹی ملتی ہیں۔ان کواچھا کھانا نصیب ہی نہیں۔۔مرزاغالب نے کہا ”ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے“۔ یا وہ شعر ”ہم کو فریاد کرنی آتی ہے۔آپ سنتے نہیں تو کیا کیجئے“ پھر انہیں کاایک او رشعر ”بات پر واں زبان کٹتی ہے۔وہ کہیں اور سنا کرے کوئی“۔