طالبان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم

افغانستان سے امریکی ا فوج کی پسپا ئی کے بعد مغربی حلقوں کے پیٹوں میں مروڑ وں کااٹھنا تو ایک فطری امر ہے کیونکہ یہ لوگ امریکی انخلاء کے ٹائم ٹیبل کے متعلق ا س خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ امریکہ چونکہ انخلاء سے قبل نہ صرف ایک مستحکم سیاسی سیٹ اپ اور خاص کرکثیر سرمایہ خرچ کر کے افغانستان میں ایک جدید اور اعلیٰ تربیت یافتہ فوج چھوڑ کرجا رہاہے اور امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کوانخلاء کے بعد بھی امریکہ کی معاشی، عسکری اور تکنیکی سپورٹ حاصل رہے گی لہٰذا اشرف غنی اور ان کے حامیوں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تاثر کی ایک اور بڑی وجہ افغانستان سے 1989 میں سوویت انخلاء کے بعد اس وقت کی سوویت حمایت یافتہ ڈاکٹر نجیب انتظامیہ کا تین سال تک مجاہدین کا مقابلہ کرتے ہوئے کابل کادفاع کرنا تھا حالانکہ ان دنوں اگر ایک طرف ڈاکٹر نجیب انتظامیہ کی سرپرستی سے سوویت یونین نے ہاتھ کھینچ لیاتھا تودوسری جانب خود سوویت یونین کے انہدام کا عمل بھی شرو ع ہو چکا تھا جب کہ اس حوالے سے ایک اور اہم بات ڈاکٹر نجیب کے برعکس ڈاکٹر اشرف غنی کو تمام مغربی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہوناتھا،ان حالات میں اس کی حکومت کے تیزی کے ساتھ خاتمے اور ملک چھوڑ کر جانے کی توقع شاید خود طالبان کو بھی نہیں تھی کہ طالبان محض نودنوں کے اندر اندر بغیر کسی جنگ اور مزاحمت کے پورے افغانستان پر قابض ہو جائیں گے۔بعض دیگر عوامل کے علاوہ دراصل یہی وہ بڑا سبب ہے جسکی وجہ سے تین ہفتے گزرنے کے باوجود طالبان اب تک نہ توکسی ممکنہ حکومتی ڈھانچے کااعلان کرسکے ہیں اور نہ ہی انہوں نے مستقبل کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل دیا ہے لہٰذا جوں جوں اس حوالے سے انتظا رکی گھڑیاں طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہیں توں توں اس سے نہ صرف اندرون افغانستان اور علاقائی ممالک کے اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ساری دنیا نے بھی کابل میں اپنے سفارت خانے بند کر تے ہوئے طالبان کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا شروع کیا ہواہے۔طالبان کی بغیر خون خرابے اور مزاحمت کے پورے افغانستان پر قبضہ کوئی معمولی بات نہیں ہے لہٰذا ایسے میں ان سے یہ مطالبہ زمینی حقائق کے قطعاً برعکس ہے کہ انہیں اشرف غنی حکومت کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ حکومت میں شامل کرنا چاہئے۔ طالبان کے خلاف ان کے ماضی کے تناظر میں دوسرا پروپیگنڈا یہ کیاجارہا ہے کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد سخت گیر قوانین نافذ کریں گے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ قوانین ایک اسلامی معاشرے میں کیونکر ”سخت“ قرارپاسکتے ہیں۔درحقیقت سخت قوانین کایہ پروپیگنڈہ محض لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح طالبان کے متعلق تیسری غلط فہمی خواتین کے حقوق کے حوالے سے پھیلائی جارہی ہے حالانکہ طالبان ایک نہیں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے خواتین کو تعلیم،صحت اور روزگار کے سارے حقوق حاصل ہوں گے لہٰذا اس واضح یقین دہانی اور طالبان کی جانب سے کابل میں خواتین کو کھلے عام احتجاج کا حق دینے کے بعد طالبان کے خلاف اس یکطرفہ پروپیگنڈے اور غلط فہمیاں پھیلانے کاسلسلہ بند ہونا چاہئے۔