لکھی فقیر کا شربت شکن جبین پشاور کا ایسا تحفہ تھا جو 1960ء کے عشرے میں گرمی کا واحد علا ج تھا وہ زما نہ ایسا تھا جب رنگ رنگ کے مشروبات نہیں آئے تھے جگہ جگہ ڈیپ فریزر نہیں رکھے تھے 18اقسام کی ٹھنڈی جدید بو تلوں کے ساتھ کئی اقسام کی دو نمبر بو تلیں ما رکیٹ کے اندر گردش نہیں کر رہی تھیں بو تل کا نا م مشروب کیلئے استعمال بھی نہیں ہو تا تھا اب یہ حال ہے کہ کوئی آپ کی تواضع کر نا چا ہے تو مشروب کا نا م نہیں لیتا بلکہ یو ں کہتا ہے ”آپ کیلئے بو تل لے آتا ہوں“ یا زیا دہ بے تکلف ہو تو شاگرد کو پکارتا ہے ”اوئے چھوٹے مہمان کیلئے بوتل لے آؤ“ مجھے یاد ہے۔ مئی 1971ء میں پہلی بار پشاور آیا تو لعل خان مجھے چوک یا د گار کی سیر پر لے گیا لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے آسا ما ئی گیٹ کے راستے اندر شہر میں داخل ہوئے چوک یاد گار پہنچنے کے بعدمو چی لڑہ اور گھنٹہ گھر کا چکر لگا یا واپسی پر ہم نے دوسرا راستہ اختیار کیا داہنے ہاتھ مڑ نے کے بعد ہمارے دائیں طرف لکھی فقیر کا سادہ بورڈ نظر آیا بورڈ کے سامنے سے گذر تے ہوئے لعل خا ن نے کہا پشاور کا مشہور شربت آپ کو پلا تا ہوں دروازے کے اندر داخل ہوئے تو کا فی وسیع جگہ تھی دیواروں پر آیا ت قرآنی اور احا دیث کے علا وہ اولیائے کرام کے اقوال، علا مہ اقبال،شیخ سعدی شیرازی اور دوسرے بزرگوں کے اشعار لکھے ہوئے تھے ایک بڑی تختی سامنے نظر آرہی تھی جس پر لکھا تھا ”شربت شکن جبین“ چند چھوٹی چھوٹی تختیاں تھی ایک تختی پر لکھا تھا ”یہاں جناب والا کو پر چی دی جا ئیگی“ ہم نے قطار میں کھڑے ہو کر پر چیاں لے لیں یہ ایک گلاس شربت کی پر چی تھی جو 25پیسے میں آتی تھی پر چی لینے کے بعد ہم دوسری قطار میں کھڑے ہو ئے اب ہمارے سامنے دوسری تختی تھی اُس پر لکھا تھا ”یہاں جناب والا کی خد مت میں شربت شکنجبین پیش کی جائیگی“۔تھوڑی انتظار کے بعد ہماری باری آئی تو بڑے گلا س میں شکنجبین کا شربت ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا گیا شربت کا ذائقہ چکھنے سے پہلے ہم نے سلو ر کے خوب صورت گلا س کو بار بار دیکھا اب ہمارے سامنے والی قطار ایک اور تحتی کی طرف آگے بڑھ رہی تھی تختی پر لکھا تھا ”یہاں جناب والا کو کر سی پیش کی جا ئیگی، اس جگہ چھوٹی چھوٹی خو بصورت کر سیاں بھی رکھی تھیں بینج بھی رکھے تھے لعل خا ن خو د بینج پر بیٹھ گئے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اب شر بت شکنجبین کا ذائقہ چکھنے کی باری آئی تو ہم حیرت کی دنیا میں چلے گئے مئی کی گر می میں ایسا احساس ہوا کہ ہم سطح سمندر سے 960فٹ کی بلندی پر پہاڑی چشمے کے پا نی سے لطف اندوز ہورہے ہیں مگر پا نی کا ذائقہ ایسا ہے جو زندگی بھر ہم نے کبھی نہیں چکھا اور وہ ذائقہ ہمیں آج تک یاد ہے جیسے کل کی بات ہوحالانکہ اس کے بعد سے ان گنت مقامات پر ہم مختلف روایتی مشروبات سے لطف اندوز ہو چکے ہیں تاہم لکھی فقیر کی مشروب کی بات ہی کچھ اور تھی۔اور سچی بات یہ ہے کہ لکھی فقیر کے آستا نے کے سوا کہیں بھی یہ ذائقہ چکھنے کو نہیں ملتا یہاں کا ماحول ایسا تھا جیسے ائیر کنڈیشنز لگا ہو حالانکہ چھت کی بلندی سے معمو لی پنکھے ہوا دے رہے تھے شربت پینے کے بعد با ہر نکلنے کو جی نہیں چا ہ رہا تھا مگر ہم نے بائیں طرف دیکھا تو ایک اور تختی نظر آئی جس پر لکھا تھا ”یہاں آپ کی اگلی آمد کے انتظار کی جگہ ہے اب تک کیلئے ہم آپ کا شکر یہ ادا کرتے ہیں“۔ تختی کی عبارت نے ہمیں با ہر جا نے کا راستہ دکھایا‘ با ہر نکل کر مسجد مہا بت خا ن روڈ پر واپس جاتے ہوئے ہم نے شر بت شکنجین سے زیا دہ آستا نہ لکھی فقیر کے ما حول کا ذکر کیا اس ما حول کی رو حا نی کیفیت کا ذکر کیا لعل خا ن نے اپنے تجربے اور مشا ہدے کی بنیا د پر بتا یا کہ یہ صرف شربت نہیں بلکہ دوا بھی ہے اس میں دوا سے زیادہ دُعا کا اثر ہے لکھی فقیر ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے انہوں نے یہاں شربت کی سبیل لگائی اور اس سبیل سے خلق خدا کو فیض پہنچتا ہے پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم نے عظمت بلڈنگ میں کمر ہ لے لیا لکھی فقیر کا آستا نہ ہمارے پڑوس میں تھا مجھ سے زیا دہ یو سف شہزاد کو پسند آیا اور ہم ہر روز مشروب پشاور سے لطف اندوز ہونے لگے پشاور کے مصروف کاروبار ی مر کزمیں لکھی فقیر کا آستا نہ ہمارے لئے نعمت سے کم نہیں تھا۔