پاکستان نے 6 کروڑ کورونا ویکسین لگانے کا ’سنگ میل‘ عبور کر لیا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں حکومت نے نوجوانوں کیلئے بھی کورونا ویکسین شروع کا اعلان کیا ہے اور یہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی) کا درست فیصلہ ہے جو اگرچہ قدرے تاخیر سے شروع ہوا ہے لیکن جس انداز میں ’این سی او سی‘ نے پیشرفت کی ہے اُس کی وجہ سے کورونا وبا پاکستان میں بے قابو نہیں ہو سکی اور اب جبکہ 17 سال سے کم عمر نوجوانوں کو بھی کورونا ویکسین لگنا شروع ہو چکی ہے تو اُمید ہے کہ اِس میں چور دروازے تلاش نہیں کئے جائیں گے۔ این سی اُو سی کی جانب سے سترہ سال سے کم عمر کے نوجوانوں کیلئے کورونا ویکسین کی اہلیت کے لئے ’فارم ب‘ کی شرط رکھی گئی ہے اور ہر شخص کے پاس اُس کا فارم ب فوری طور پر دستیاب نہیں ہوتا۔ فارم ب جس میں خاندان کے تمام افراد کے کوائف کی تفصیلات درج ہوتی ہیں اگر اِس فارم کی بجائے والدین کے قومی شناختی کارڈ نمبر ہی کی بنیاد پر سترہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو ویکسین لگائی جائے تو اِس سے ویکسین لگوانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا‘ جو ’این سی او سی‘ کا سب سے بنیادی ہدف ہے۔ 12 سے 17 سال کی درمیانی عمر کے نوجوانوں کو ویکسین لگانے سے اُمید ہے کہ تعلیمی عمل کا تعطل بھی ختم ہوگا اور کالجز و جامعات میں درس و تدریس کا عمل کی روانی بحال ہو گی۔کورونا وبا ایک سنجیدہ خطرہ ہے جس سے بچنے کیلئے وقفوں سے بندشوں کا نفاذ کیا جا رہا ہے تاکہ معمولات زندگی کم سے کم متاثر ہوں۔ عوام کی اکثریت اِن بندشوں (لاک ڈاؤنز) سے پریشان ہے جن سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ویکسین کا عمل جلد از جلد مکمل کیا جائے چونکہ کورونا وبا کی نئی قسم (ڈیلٹا وائرس) بچوں کو متاثر کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اِس لئے فیصلہ سازوں کو بچوں کیلئے کورونا کے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق بھی حکمت ِعملی وضع کرنی چاہئے جو صرف تعلیمی ہی نہیں بلکہ دیگر سماجی معمولات و کاروباری سرگرمیوں میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کورونا وبا کو بیس ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور اِس سے کم عرصہ ویکسین کے آغاز کا ہے جس کے دائرہ کار میں توسیع کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ تر عمر کے لوگ اِس کا احاطہ کر سکیں اگرچہ کورونا وبا سے متاثرہ بچوں کی تعداد زیادہ لیکن اموات کی تعداد کم ہے لیکن بچوں کی زندگیوں کیلئے اِس خطرے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ پہلے قدم کے طور پر حکومت پاکستان کو پندرہ سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کو ویکسین دینے کے عمل کو تیز کرنا چاہئے۔ اِس سلسلے میں گردوپیش میں ہونے والے تجربات و اقدامات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جیسا کہ بھارت نے عمومی ادویات بنانے والے ایک ادارے کو اجازت دی ہے کہ وہ بچوں اور نوعمروں میں کورونا ویکسین کے اثرات کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے حکومت کو بچوں کیلئے ویکسین کے اثرات‘ اِس کی حفاظت اور برداشت بارے کوائف و تفصیلات مدنظر رکھنی چاہیئں کیونکہ مغربی ممالک میں دی جانے والی کئی ویکسینوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اُن کے نتائج کم عمر بچوں پر مختلف ظاہر ہوئے ہیں۔خوش قسمتی قرار دی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں کورونا کا وبائی مرض کنٹرول میں دکھائی دیتا ہے لیکن یہ ہر مرتبہ سر اُٹھانے کی کوشش ضرور کرتا ہے‘ جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں پابندیاں (لاک ڈاؤنز یا سمارٹ لاک ڈاؤنز) لگانے پڑتے ہیں۔ اس پوری صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے عوام کا تعاون اور سنجیدگی بہت اہم ہیں اور کم سے کم تعاون اور سنجیدگی کا مظاہرہ یہ ہوگا کہ جب تک کورونا پھیلنے کا سلسلہ رکن نہیں جاتا اُس وقت تک عوامی و سماجی تقریبات اور اجتماعات منعقد نہیں ہونے چاہئیں۔ حکومت کی جانب سے حفاظتی ہدایات (ایس او پیز) جاری کر دی گئی ہیں جن پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے لیکن اُن کی کھلم کھلا اور بڑے پیمانے پر خلاف ورزی دیکھتے ہوئے وبا کے سنگین خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جو ہمارے درمیان موجود ہے اور خاموشی سے وار کر رہا ہے۔ کورونا ایس اُو پیز پر عمل درآمد نہ کرنے والے اپنی اور اپنے گردوپیش میں رہنے والوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے کے مترادف رویوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ انسانی زندگی سے اہم کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی اور نہ ہی انسانوں کے تحفظ سے زیادہ کوئی دوسری ترجیح ہونی چاہئے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین دی جائے اور جب تک ویکسین کا عمل مکمل نہیں ہوتا اُس دوران ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرانے میں مصلحت سے نہیں سختی سے کام لینا چاہئے۔