شکر ہزار شکر کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے سپلائی روڈ کو نئی نویلی صورت میں تعمیر شدہ دیکھ لیا۔ یہ وہ سڑک ہے کہ جس کو اب تک دو ہی بار مرمت کیا گیا تھا۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہم نے اس سڑک پر اتنے دھکے کھائے ہیں کہ آنتیں منہ کو آتی تھیں۔ بارہا دوستوں یاروں نے اس بابت شکایت کر کے اس موضوع پر کالم لکھنے کو کہا۔ہمارا کیا ہے ہم نے بھی دو ایک کالم جھاڑ دیئے تھے۔ بھلا وہ اتنے فارغ ہوں گے کہ کالم بھی پڑھیں گے اور پھروہ بھی ہمارے۔ان کے اپنے سو کام دھندے ہیں۔خیر یہ سڑک اب بن گئی ہے۔رواں دواں اور خوبصورت۔ جس پر گاڑی کو جاتے ہوئے مالک تو کیا خود گاڑی کو لطف آئے۔ جی ٹی روڈ گلبہار کے سامنے نہر کے ساتھ ساتھ جاتی ہوئی یہ سڑک دلہ زاک روڈ سے ملتی ہے۔مگر دلہ زاک روڈ کی حالت جو پخا غلام نہر کے پل کے بعد خستہ حال ہے وہ اب تک ہے۔اس پر لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں محکمہ تعمیر والے مہربان ہونے والے ہیں۔ کیونکہ مہینوں ہوئے اس سڑک کو توڑ پھوڑ کر کے اس میں چھید ڈال کر اس کو از سرِ نو تعمیر کرنے کو تیار کیا ہواہے۔سو ان دنوں شاید یہ سڑک بھی تعمیر ہو جائے۔ کیونکہ یہ تو انتہائی مصروف سڑک ہے۔جس کے دونوں کناروں پر سکول اور کالج اور یونیورسٹیاں آباد ہیں۔جہاں روزانہ ہزاروں طالب علم گزرتے ہیں اور ہزاروں ہی عام راہگیر پیدل ہو ں یا گاڑی میں گزر جاتے ہیں۔پہلے اس پر روزحادثات ہوتے تھے۔ کیونکہ یہ سڑک بہت تنگ تھی۔مگر اب جبکہ کشادہ ہوئی ہے حادثات میں کمی آئی ہے۔بائیک والے تو موٹر سائیکل سمیت نالے میں گرتے ہوئے ہم نے بہ چشمِ خود دیکھے ہیں۔یہاں سے گزرنے والے اپنے منہ میں چھٹانک بھر دھول لے کر گھر جاتے ہوں گے۔گاڑی آتی ہے اور چھڑکا ؤ کرتی ہے تاکہ یہ دھول بیٹھ جائے۔ مگر یہ مٹی کوبرا سانپ کی طرح دوبارہ سے پھن پھیلا کر عوام الناس کو ڈستی ہے۔کاش ہم اپنی آنکھوں سے اس سڑک کو بھی بناہوا دیکھ لیں۔ دیکھیں کہ اس پر بھی تارکول نما کارپٹ سپلائی روڈ کی طرح کا بچھا دیا جائے۔سپلائی روڈ کے بارے میں ایک ڈر ہے۔ اس سڑک کو پھر سے توڑ پھوڑ کر کے برباد نہ کر دیں۔ خراب کرنے والے کہاں سے آئیں گے۔ وہی ہیں کہ جو اس پر سے روز گزرنے والے ہیں۔یہ لوگ اس نرم وملائم سڑک پر تیز رفتاری بلکہ برق رفتاری سے جائیں گے۔اس کے کارن خدا نہ کرے کوئی حادثہ رونما ہوا تو پھر یہاں وہ مقامی لوگ جو ناسمجھ ہیں۔اس کا انتقام یوں لیں گے کہ یہاں اپنے خرچے پر کوئی سپیڈ بریکر بنا دیں گے۔ پھر اس کے دیکھا داکھی یہاں اور لوگ کسی تعمیرہونے والی عمارت یا گھر سے سیمنٹ اٹھا کردوسری جگہوں پر بھی سپیڈ بریکر بنا کر اس سڑک کاحلیہ بگاڑ دیں گے۔ یہ سڑک اس وقت واقعی رن وے کامنظر پیش کررہی ہے۔اگر اس کی مثال ہوائی جہاز کے رن وے سی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ اس پرسے من چلے جب چلے جا رہے ہوں گے تواپنی گاڑی کو جہاز سمجھ کر ٹیک آف کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ہم اس کام سے باز آجائیں تو کتنا اچھا ہو۔ ورنہ اگر سپیڈ بریکر نہ بنا تو اس سڑک کو دکاندار اپنی دکان کے آگے سے ہتھوڑی اور چھینی کے ساتھ چھید کر کے ایک نالی بنا لیں گے جوسیدھا جا کر نہر میں گرے گی۔ ان کی دکانوں کا گندا پانی نہر میں بہانے کو اس سڑک کو کریدا جائے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اب سڑک بنی ہے تواس کی حفاظت کا بندوبست بھی ہونا چاہئے۔ دکانداروں سے کہلوا دیں کہ اس پر نہ کوئی سپیڈ بریکر بنے گا اور نہ ہی اس میں سے کوئی بندہ نالی نکالے گا۔ جس کی دکان کے آگے یہ لاقانونیت ہو وہ اس کا ذمہ دار تصور کیا جائے گا۔ اس طرح پھر اس سڑک کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ہاں اگر ہمارے یہاں کے ٹھیکیداروں نے کوئی ساز باز نہ کیا ہو تب بھی اس راہ گزرکو نقصان کم ہی پہنچے گا۔کیونکہ اس سے پہلے بھی سڑک بنی تھی مگربارش کے ہونے کے بعداس میں کھڈے بن گئے تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہاں سیمنٹ کم لگایا گیا تھا اور ناقص میٹیریل کی وجہ سے سڑک جگہ جگہ سے اکھڑ گئی تھی۔ اس سڑک کی تعمیر کا کریڈٹ جس کو جاتا ہے اچھی بات ہے۔مگر اس کی حفاظت کا سہرا بھی تو کسی کے سر بندھنا چاہئے۔ اپنی تعریف کرنے والی بات ہے۔حالانکہ ایسا نہیں مگر بعض لوگ اس کاکریڈٹ ہمیں بھی دیتے ہیں کہ آپ کے کالموں کی وجہ سے اس سڑک کی تعمیر کاڈول ڈالا گیا۔ ہم نے پہلے بھی کہاتھا کہ نہ تو وہ اتنے اچھے ہیں کہ وہ ہمارے دولفظوں پرپوری لمبی سڑک بنا دیں اور نہ ہی ہم اتنے اچھے ہیں کہ ہمارے کہے کاکچھ اثر ہو۔اس طرح کی شہر کی بہت سی سڑکیں ہیں جو تعمیر کرنے کے قابل ہیں مگر اس طرف بھی توجہ نہیں دی جارہی۔چلو اگر اس کانمبر آیاتو دلہ زاک روڈ کے پخہ غلام والے پورشن کی باری بھی آجائے گی۔ پھر اسی طرح دیگر سڑکوں کی تعمیربھی آخر ہوہی جائے گی۔ حکومت کایہ کام لائق تعریف ہے کہ انھوں نے شہریوں کی تکالیف کودور کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔