مہا جر کیمپ 

سر کاری حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں میں بھی یہ بات تسلسل کے ساتھ کہی جا رہی ہے کہ افغانستان سے مہا جرین کا نیا ریلا پا کستان میں پناہ لینے کیلئے آنے والا ہے۔ایک رپورٹ مطابق خیبرپختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع کے حکام نے ممکنہ بحران سے بچنے کیلئے افغان مہاجرین کی میزبانی کیلئے ہنگامی منصوبہ تجویز کیا ہے، مہاجرین کو طورخم، چمن، غلام خان اور ارندو کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی اور وہ خیبر پختونخوا کے تین اضلاع خیبر، شمالی وزیرستان اور چترال میں چار پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پذیر ہوں گے۔ جب کہ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ ڈویژن میں بھی ایک مہاجر کیمپ قائم کرنے کا منصوبہ ہے۔ مجوزہ ہنگامی منصوبہ کے تحت پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھا جائیگا۔ تاہم یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایسا کرنا ہمیشہ یا لمبے عرصے کیلئے کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)کے ترجمان قیصر خان آفریدی کے مطابق کچھ عرصے بعد مہاجرین کو قومی معیشت کا حصہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے‘سو شل میڈیا پر یہ فضول بحث چل رہی ہے کہ ان کو پنا ہ دینی چا ہئے یا نہیں؟ یہ بحث اس بنا ء پر فضول ہے کہ پناہ دینے سے انکار کی کوئی صورت نہیں ہے یقینا پنا ہ دینی ہے اور لا زما ً پنا ہ دینی ہے اس کی ثقا فتی اور تاریخی وجو ہات بھی ہیں جغرا فیائی محل وقوع کا بھی یہی تقاضا ہے نیز اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے عالمی دباؤ کا بھی سامنا ہے اس لئے ہمیں مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپنا نی ہو گی کہ نئے پنا ہ گزینوں کی طرف سے مستقبل میں پاکستان کو اندرونی سلا متی کے خطرات درپیش نہ ہو ں ہمارے سامنے ایران کی اچھی مثال مو جود ہے 1980ء میں ایرانی انقلا ب کو بمشکل ایک سال کا عرصہ گزرا تھا کہ افغا ن پنا ہ گزینوں کا مسئلہ سامنے آگیا‘ایرا نی حکومت مشکل حا لا ت سے گزر رہی تھی لیکن اس کے باو جود ایران کی حکومت نے افغا ن مہا جرین کیلئے خار دار تاروں کی چار دیواریوں میں ایسے کیمپ قائم کیے جہاں سے با ہر جا نیکی اجازت نہیں تھی جب روس نے افغانستان سے فو جوں کا انخلا کیا تو افغا ن مہاجرین کو ان کیمپوں سے اٹھا کر سرحد پر افغا ن حکا م کے حوالے کیا گیا ایک بھی افغا ن مہا جر تہران، شیراز، مشہد اور اصفہان کی گلیوں میں گُم نہیں ہوا یہ مو ثر اور کا میا ب حکمت عملی تھی اگر 1980ء میں پاکستان اس طرح کی حکمت عملی بنا لیتا تو پا کستا ن کی حکومت اندرونی سلا متی کے خطرات سے دوچار نہ ہو تی اور افغا ن پنا ہ گزین روسی فو ج کے انخلا کے بعد اپنے وطن اور گھروں میں جا کر آباد ہو جا تے پا کستانی عوام اور افغا ن پنا ہ گزینوں کے درمیاں غلط فہمیاں بھی پیدا نہ ہو تیں اور آج ایک طبقہ پنا ہ گزینوں کو پنا ہ دینے کی مخا لفت نہ کرتا۔ مختلف ذرائع سے جو خبریں اب تک آئی ہیں ان خبروں کے مطا بق 2021میں جو افغا ن شہری بے گھر ہو کر دوسرے ملکوں میں پنا ہ لینے پر مجبور ہونے والے ہیں یہ 1980کی دہا ئی میں آنے والوں سے یکسر مختلف ہیں۔ اگر چہ امارت اسلا می نے ان کیلئے عام معا فی کا اعلا ن کیا ہے مگر یہ لو گ انجا نے خو ف کا شکار ہیں ان کی دشمنیاں بھی جنم لے چکی ہیں اس وجہ سے یہ لو گ خود کو محفوظ نہیں سمجھتے اقوام متحدہ نے اس سال کے آخر تک 5 لاکھ افغانوں کے پنا ہ گزین ہو نے کا اندا زہ لگا یا ہے اگلے سال اس تعداد میں اضا فہ ہو سکتا ہے اس بنا ء پر محب وطن حلقوں کی یہ رائے بہت وز نی ہے کہ آنے والے افغا ن پنا ہ گزینوں کیلئے منا سب جگہوں میں خار دار تاروں کی مضبوط چار دیواری کے اندر کیمپ بنا ئے جا ئیں ان کو کیمپ سے با ہر جانے‘ کاروبار کرنے اور لوگوں میں گھل مل جا نے کی اجا زت نہ دی جا ئے عالمی ادارے کیمپوں کے اندر خوراک، علا ج، تعلیم اور دیگر سہو لیات فراہم کرینگے افغا نستا ن میں حا لات بہتر ہو نے اور خوف کے خد شات ختم ہو نے کے بعد ان کو کیمپوں سے اٹھا کر افغا نستا ن کی سر حد پر اس طرح مقا می حکام کے حوالے کیا جا ئے گا جس طرح ایران نے کیا تھا ملک کے بہترین مفاد میں یہ معتدل رویہ اور محفوظ راستہ ہو گا۔