جیرا نمو الپاکا آٹھ سال زندہ رہا۔ چار سال اُس نے نیوزی لینڈ میں اور چار برطانیہ میں گزارے۔ آخری چار سال اُس کی قید ِ تنہائی میں گزرے۔یہ اگست 2017 کاواقعہ ہے کہ ایک برطانوی وٹرنری نرس ہیلن مکڈونلڈ نیوزی لینڈ سے ایک الپاکا لے آئی۔یہ ایک اونٹ نما لیکن اونٹ سے چھوٹا جانور ہے۔ اس کا نام ’جیرانمو‘ رکھا گیا تھا۔ برطانیہ پہنچنے پرجب اس کا طبی معائنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ اسے ایک خطرناک متعدی بیماری ”بو وین ٹی بی“ لاحق ہے جودوسرے حیوانات کو لگ جاتی ہے اور اُن کی زندگی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔اس لئے حکومت برطانیہ کے قانون کے تحت کہ اس بیماری سے متاثرہ حیوان کو تلف کیا جاتا ہے۔ بظاہر تو یہ ایک ظلم ہے لیکن حیوانات کی زندگی بچانے کیلئے یہ قدم اُٹھایا جاتا ہے۔جیرانمو کی مالکن نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ اُس کے پالے ہوئے جانور کو کوئی بیماری ہے اس لئے کہ بقول اُس کے نیوزی لینڈ میں اُس کے باقاعدہ ٹیسٹ ہوئے تھے جن میں اس قسم کی کسی بیماری کا خدشہ ظاہر نہیں کیاگیا تھا۔ اس پر متعلقہ حکام نے جیرانمو کی خون کا دوبارہ نمونہ لیا اور ٹیسٹ کیا۔ نتیجہ وہی آیا۔ جیرانمو کو بی ٹی بی تھی۔ ہیلن مکڈونلڈ کا خیال تھا کہ جیرانمو صحت مند ہے اور اُسے کوئی بیماری نہیں ہے۔اس لئے اُس نے انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔چار سال گزر گئے۔ فیصلہ آیا کہ قانون عمل میں آئے گا اور جیرانمو کو سہل مرگی کے عمل سے گزارا جائے گا۔خاتون نے عدالتی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو خارج ہوئی۔ اس دوران جیرانمو کو اپنے مالکن کے فارم ہاؤس پر علیحدہ رکھا گیاتھا اور کئی لوگ اُس کی زندگی بچانے کیلئے کوشش کر رہے تھے۔یہاں تک کہ وزیراعظم بورس جانسن کے نام درخواست لکھی گئی جس پر ایک لاکھ چالیس ہزار افراد نے دستخط کئے۔اس کے علاوہ 10 ڈاوننگ سٹریٹ پر مظاہرہ بھی ہوا لیکن جیرانمو کو بچانے کی کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوئی۔متعلقہ حکام2 ستمبرکوہیلن مکڈونلڈ کے فارم پر پہنچے اور جیرانمو کو پکڑ کر لے گئے۔اُس نے اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن متعلقہ اہلکار ایسے حالات سے نپٹنا جانتے تھے۔ چار سال تک جیرانمو کی زندگی بچانے کیلئے قانونی جنگ لڑنے والی مالکن نے الزام لگایا کہ حکومتی کارندوں کو اختیار حاصل تھا کہ الپاکا کو لے جاتے لیکن جس طریقے سے اُسے کھینچا گیا اور اس کے ساتھ جو زبردستی کی گئی وہ رویہ مناسب نہیں تھا۔ ”یہ جانوروں پر ظلم کے زمرے میں آتا ہے“ اس نے کہا۔اس سلسلے میں چیف وٹرنری آفسر کرسٹین مڈل مکس نے کہا کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کسی بیمار جانور کو جسے بچایا جا سکتا ہو، تلف کیا جائے لیکن یہ ناخوشگوار قدم اُٹھانا پڑتا ہے اس لئے کہ ملک میں حیوانات کی زندگی کو درپیش خطرے کو دور رکھا جائے۔ اس موقع پر وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ کسی جانور کو ضائع ہوتے ہوئے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے مکڈونلڈ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔جیرانمو کی زندگی بچ نہ سکی۔ اُس کے جانے کا سب کوافسوس ہے۔ اس پر ہمیں کاؤں نام کا ہاتھی یاد آیا جو خوش قسمت تھا اپنے گھر پہنچ گیا۔وہ اسلام آباد میں مرغزار چڑیا گھر میں تیس سال سے زیادہ عرصہ رہا۔ آخری سالوں میں جب اُس کی ساتھی چلی گئی او وہ تنہا رہ گیا تو بہت خفا رہنے لگا۔ اُس کی حالت کو ایک پاکستانی نثراد امریکی خاتون نے بھانپ لیا۔ یہ خاتون حیوانات سے متعلق معلومات رکھتی تھی اور ہاتھیوں کے حالات کو سمجھتی تھی۔ وہ ایک دن چڑیا گھر گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ کاؤں دیوار سے سر ٹکرا رہا ہے۔ وہ سمجھ گئی کہ پنجرے کے اندر یہ ہاتھی شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ اس نے کاؤں کیلئے تحریک شروع کی جس میں حیوانات کے حقوق کی تحفظ کرنے والے کئی خواتین و حضرات شامل ہوئے اور پچھلے سال کاؤں کو کمبوڈیا پہنچادیا گیا جہاں سے وہ آیا تھا۔ اب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خوش ہے۔ ہم اگر کسی جانور کی دل کی حالت کو محسوس کرنے کی کوشش کریں تواُن کی بھی زندگی ہے اور وہ بھی دکھ، سکھ کے جذبات رکھتے ہیں۔