معاشی اصلاحات: انتشاری پہلو

مارچ 2012ء: فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس دہندگان سے متعلق اعدادوشمار جاری کئے جن کے مطابق پاکستان کی قریب 22 کروڑ آبادی میں 22 لاکھ سے کم لوگوں نے ٹیکس ادا کیا ہے اور اِس سے بڑھ کر تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے 30 فیصد کم ہوئی ہے یعنی 9 لاکھ 35 ہزار افراد ایسے ہیں جنہوں نے دوہزاربیس میں ٹیکس ادا کیا تھا لیکن دوہزار اکیس میں اُنہوں نے اپنی آمدنی کم ظاہر کرتے ہوئے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ ’ایف بی آر‘ کے پاس ایسے افراد 22 لاکھ سے زیادہ افراد کے کوائف موجود ہیں جنہوں نے ایک مرتبہ یا چند مرتبہ ٹیکس ادا کر کے ’نیشنل ٹیکس نمبر‘ تو حاصل کر لیا ہے لیکن وہ ٹیکس جمع نہیں کرواتے۔ اِس صورتحال کی سنگینی کا پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس دینے والے والے 3 میں سے صرف 2 لوگ ایسے ہیں جنہیں آمدنی ہو رہی ہے اور باقی سب خسارے میں ہیں! ٹیکس قانون کے تحت ’نیشنل ٹیکس نمبر‘ رکھنے والوں کو نصف کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور یوں ’ٹیکس نمبر‘ کی سہولت او رعایت حاصل کرنیو الے قانون کا فائدہ تو اُٹھا رہے ہیں لیکن اِس سے ملک کو خاطرخواہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ تو کیا اِس انتشاری پہلو کے بارے فکرمند ہونا چاہئے؟اکنامک ایڈوائزری کونسل اجلاس میں منظوری کے بعد جن نئے معاشی منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے‘ اُن میں آئندہ تین برس (2024 تک) معاشی شرح نمو کو بڑھا کر چھ فیصد تک لے جانے کا ہدف بھی شامل ہے یعنی اندرون ملک پیداواری شعبہ اس قدر ترقی کرے کہ معاشی شرح نمو قریب 100 فیصد بڑھ جائے گی! اس کے ساتھ ہی حکومت کا بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے پر بھی غور ہوا ہے جس میں بیرونی قرضہ کم لینے سے لے کر پہلے سے موجود قرضوں کی واپسی سے متعلق امور شامل ہیں۔ذہن نشین رہے کہ پاکستان کے ذمے حکومتی قرضوں کی مجموعی مالیت قریب 40 ارب ڈالر ہے!پاکستان کی معاشی پریشانیاں کم آمدنی کی وجہ سے ہیں۔ اگر ٹیکس وصولی کا نظام درست کیا جائے اور جن لوگوں کی آمدنی زیادہ ہے اُن سے زیادہ ٹیکسیز وصول کئے جائیں تو 40 ارب ڈالر قرضہ جات واپس کرنا کوئی مشکل نہیں کیونکہ ایسے پاکستانی موجود ہیں جن کے بیرون ملک بینک کھاتوں میں سینکڑوں ارب ڈالر ہونے کا انکشاف ہو چکا ہے لیکن چونکہ وہ خود حکومت میں شامل تھے یا حکومت کے ساتھ سیاسی مفاہمت میں تھے اِس لئے مذکورہ سینکڑوں ارب ڈالر‘ جن کی آمدن کا ذریعہ معلوم نہیں یا پھر مشکوک ہے پاکستان واپس نہیں لائے جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی تقاریر میں اکثر اُن کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے طرزحکمرانی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں!ٹیکس سے آمدنی بڑھانے کیلئے حکومت زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتی ہے لیکن جہاں ٹیکس کلچر کا فقدان ہو‘ وہاں ٹیکنالوجی تن تنہا تبدیلی کا باعث نہیں بن سکتی اور یہی پہلو پاکستان کی معاشی ابتری کا سب بڑا مسئلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پہلے مرحلے میں حکومت کی جانب سے معاشی نمو کیلئے چودہ شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے ذریعے ملازمتوں کے مواقع بڑھائے جائیں گے تاکہ معاشی خوشحالی سے غربت میں کمی آئے۔ یہ لائحہ عمل (منصوبہ) ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب حکومت کی آئینی مدت کے دو سال باقی ہیں اور جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اِنہی دو برس کے دوران کرنا ہوگا جس کا مطلب ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ حکومت کا سب سے زیادہ زور وسائل کی پیداوار اور ترقی ہے جس میں اہم ترین ٹیکس اکٹھا کر کے بجٹ خسارہ کم کرنا ہے اور ایسے میں نادرا کے اشتراک سے ٹیکس چوری کو روکنا ممکن ہے جس کیلئے حکمت عملی پر اتفاق کر لیا گیا ہے اور دعوی کیا جا رہا ہے کہ حکومت کا نیا معاشی روڈ میپ قابل عمل ہے جس میں قلیل‘ درمیانی اور طویل مدتی مسائل کو حل کر معیشت کو ترقی دینا ترجیح ہے۔ اِسی کے تحت نادرا کے ساتھ نظام بھی اسی کوشش کا حصہ ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے اور ملکی سطح پر وسائل پیدا ہوں تاکہ بیرونی قرضوں سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ اس روڈ میپ میں ایک درجن سے زیادہ شعبوں پر فوکس کیا گیا ہے تاکہ برآمدات بڑھائی جا سکیں اور حسب منصوبہ بندی توقع ہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کے اختتام تک برآمدات 35 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی اور اس وجہ سے ملکی وسائل کو مزید تقویت ملے گی۔ معاشی روڈ میپ ’جامع منصوبہ‘ نہیں بلکہ صرف خواہشات کا مجموعہ ہے کیونکہ اس حکمت عملی میں صرف تصورات پیش کرتے ہوئے بات کی گئی ہے لیکن اِن پر عملدرآمد کیسے ہوگا یہ نہیں معلوم! بنیادی بات یہ ہے کہ زیادہ ٹیکس جمع کرنے کیلئے نادرا کے کوائف کا استعمال کیا جائے گا۔ نادرا کوائف (ڈیٹا) کی بنیاد پر سٹیزن پورٹل بنایا جائے گا جو ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی کرے گا جن کی آمدن اور اخراجات تو بے تحاشا ہیں تاہم وہ پاکستان میں ٹیکس ادا نہیں کر رہے یعنی نان فائلر ہیں۔ اسی طرح ایسے افراد جو ملک کے ٹیکس کے نظام میں فائلر کے طور پر تو رجسٹرڈ ہیں تاہم ان کی جانب سے کم ٹیکس ادا کیا جاتا ہے جو ان کے اخراجات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ٹیکنالوجی کا استعمال ٹیکس اکٹھا کرنے میں مفید و مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن ٹیکس کلچر کا عمومی فقدان اپنی جگہ بہت بڑا مسئلہ ہے جس کیلئے حکومت کو انتظامی طریقوں سے کام لے کر ٹیکس اکٹھا کرنا پڑتا ہے لیکن ایسی صورت میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ طبقات بھی ٹیکسیز کی زد میں آ جاتے ہیں جن کی نسبتاً آمدنی کم ہوتی ہے۔ اِس صورتحال کو اِن اعدادوشمار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو گذشتہ مالی سال (دوہزاربیس) کے مقابلے موجودہ مالی سال میں 900ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کرنا ہے جس کے ذریعے ملک میں ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کے علاوہ اندرونی و بیرونی قرضہ جات کی قسطوں کی ادائیگی بھی شامل ہیں تو کیا کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو اِس انتشاری پہلو کے بارے فکرمند ہونا چاہئے؟