کمائیاں قلیل ہو رہی ہیں۔کنبے کثیر ہو رہے ہیں۔بیماریوں نے آن گھیرا ہے۔آمدن کے ذرائع نہیں ہیں۔ دیہاڑی پر مزدوری ملے تو ملے۔ وگرنہ تو مِل مالک کارندوں کودھیرے دھیرے نوکریوں سے فارغ کر رہا ہے۔کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ احتیاط کے نام پر قوم بھوک سے نڈھال ہے۔اگر عالمی وائرس سے دھینگا مشتی نہ بھی ہوتی۔پھر بھی ہم نے اسی طرح رہنا تھا۔ ہماری کمائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور جب سے وباء نے پنجے گاڑھے ہیں اور کاروبار زندگی معطل ہے توغربت نے ہمارا دروازہ دیکھ لیا۔بلکہ غربت بیچاری کو کہیں ٹھکانہ نہیں ملتا۔ اسے کوئی اپنے ہاں ایک کمرہ بھی نہ دے۔اس کو ہمارے یہاں شہروں کے شہر رہنے کو مل جاتے ہیں‘بلکہ اس کو ساتھ یہ اجازت بھی مل جاتی ہے کہ جو چاہو کرو۔ یہی تمھاری زمین ہے یہی تمھارا ٹھکانہ ہے پھرمستقل ٹھکانہ۔مہنگائی نے قسم کھا لی ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے نہیں آئے گی۔۔وہ دکان پر کھڑے ہو کر سودا لینے کو جنس ارزاں کانرخ پوچھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے وہ جسے ارزاں سمجھا وہ جنسِ گراں بلکہ گرامایہ ہے۔وہ اپنا سامنہ لے کرتھڑے سے قدم نیچے رکھتاہے۔اس کو اگر حق ہے کہ وہ کسی طرح بھی پیٹ پوجا کرلے۔ گھر کے افراد کیلئے کچھ کھانا پینا مول لے۔ اس کویہ دعوے داری کسی نے نہیں دی کہ وہ گوشت خرید سکے چکن خریدے یا کھانے پینے کی اور کوئی چیز خرید کر گھر لے جائے۔ وہ خریدے گا تو آلو خریدے گا اس کا بجھیا بنے گا اور گھر کے افراد کھا پائیں گے۔ وہ گھر جہا ں روز آلو پکتے ہیں۔آلو بھی کون سے ارزاں قیمت ہیں۔گراں قیمت ہیں مگر کسی طرح بھی خرید کر اس کاسالن بنا کر بچوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔بچے چولہے پرچڑھی ہوئی ہانڈی کے گرد بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب ہنڈیا اترے تو یہ نوش کریں۔جس میں گھی نام کو ڈالاگیا ہے۔بلکہ آلو پانی کی ڈش تیار ہو رہی ہے۔پھر ماں بھی تو ان کا دل رکھنے کو ہانڈی میں فضول کے چمچے چلا رہی ہے۔پھر بعض گھروں میں بچہ اضافی مانگے جو روٹی پڑی ہوتی ہے تو ماں کے پاس سوٹی پڑی ہوتی ہے۔ماں بیچاری بھی کیا کرے جو اس کو لا کر دیا جائے گا وہی پکائے گی۔ خواہ جتنا ہے۔وہ بھی چڑچڑی ہو گئی ہے۔باپ جو کمائے گا لائے گا۔ اگر کسی دن مزدوری نہ ملے تو کسی سے اُدھار پکڑ لے گا۔مگر کب تلک۔ وہ اُدھار بھی تو آخر واپس کرناہے۔قرض کا ایک روپیہ ہو یا اپنی جان واپس دیناہوتی ہے۔مگر آفرین ہے ان پر جن کے دم قدم سے معاشرے کے غریب گھرانوں کے چولھے جل رہے ہیں۔ وہ مہربان جو نظر نہیں آتے یا دکھائی دینا نہیں چاہتے۔مگر وہ اس معاشرے کے زخموں پر چپکے چپکے اور آہستہ آہستہ پھائے رکھتے ہیں۔مگر غربت مٹائے نہیں مٹتی۔الٹا غریب بستر ِمرگ پر تڑپتے ایڑھیاں رگڑ کر پہلے تو زندہ درگور ہوتا ہے۔ پھر آہستگی سے گور اندھیروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔اس کو اگر اس عالم میں کہ جہاں روٹی بھی میسر نہ ہو وہاں کوئی بیماری آن گھیرے تو وہ گیا۔ اس کا تو کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہوگا۔ ارے کون پوچھتا ہے۔یہاں تو اپنی سی اور اپنی اپنی زندگی جی رہے ہیں۔کون کس کاآشنا ہے۔یارانے بھی تومطلب کے ہیں۔دوست وہ ہے جو مصیبت میں کسی کے کام آئے۔ مصیبت جاری رہے اور دوست کی دوستی بھی قائم رہے ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ عزیزرشتہ دار بھی کب تلک کام آئیں گے۔ان کے اپنے بہت سے کام ہوتے ہیں۔وہ ہمسایے کی روٹی پوری کرے یا بیٹے کی شادی کا بندوبست کرے۔اس کو اپنی خوشیاں عزیزہوتی ہیں۔اگر غریب کی تھوڑی مدد کر لے تو اس کاکیا جاتا ہے۔مگر وہ مدد کرکے خود اتنا غریب نہیں ہونا چاہتا کہ ایک ہے تو دوسری گاڑی نہ خرید سکے۔یا پھر ایک گاڑی بھی خرید نہ پائے۔ اس کو اپنے بچوں کے لاکھوں روپوں کے تعلیمی سمسٹر کے داخلوں کی فکر شب و روز ستاتی ہے۔اس کو کسی رشتہ دارکی بیماری کی کیاپروا۔ حالانکہ وہ بیمار تھوڑے پیسوں کی دوا کی وجہ سے بیماری آزادی کے بستر سے اٹھ سکتاہے۔ سرمایہ دار کومعلوم ہوتاہے کہ میراعزیز تھوڑی سی مالی امداد کے بعد ٹھیک ہوکر چلناپھرناشروع کردے گا۔مگر ہیں ایسے سنگ دل جو یہ چاہتے ہیں کہ یہ بستر پر دراز رہے اورمیں جمع پونجی میں خوب اضافہ کروں اور خود گھومتا پھرتارہوں۔اس کے پاس سونے اور نقدی کے انبار لگے ہیں۔مگر ہمسائے میں ساتھ والے کی بیٹی کے پاس دو تولے زیور نہ ہوگا۔ جس کے سر کے بالوں میں چاندی کے دو سفید تار جھلملانے لگے ہیں۔اس کے گھر میں بیٹے کی شادی رچی ہے۔مگر پاس کے گھر میں بچی کی عمر زیادہ ہو رہی ہے۔”رہتا ہے اک ملول سا چہرہ پڑوس میں۔ اتنا نہ تیز کیجئے ڈھولک کی تھاپ کو۔“