نئی افغان حکومت اور کابینہ کے اِعلان سے غیریقینی کی صورتحال جو کہ پندرہ اگست سے جاری تھی کا اختتام ہو گیا ہے اور اب یہ حقیقت پوری دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ طالبان نے افغانستان سے انخلأ کیلئے امریکہ کی مقرر کردہ اکتیس اگست کی حتمی تاریخ (ڈیڈ لائن) سے بھی پہلے افغان فوج اور اس کی معاون سکیورٹی ایجنسیوں کو پسپا کرکے پورے افغانستان پر غلبہ حاصل کر لیا ہے جبکہ اپنی فوجی طاقت اور وسائل پر انحصار کرنے والے امریکہ‘ برطانیہ اور نیٹو تنظیم کے رکن ممالک اِس حد تک مجبور تھے کہ یہ اپنے سول و فوجی اہلکاروں اور شہریوں کو بمشکل کابل سے نکال پائے۔ دنیا نے طالبان کی پیش قدمی اور ثابت قدمی کو دیکھا لیکن طالبان کو تسلیم کرنے کی بجائے اِن کے خلاف گمراہ کن قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور مغربی ممالک کی جانب سے افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کا تقاضا کیا جانے لگا۔ طالبان کے اقتدار کے حوالے سے امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت اور بعض مسلم ممالک کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار سامنے آیا اور ان کی جانب سے باور کرایا گیا کہ طالبان کے طرزِعمل اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق پاسداری کے معاملہ پر ان کے رویئے کا جائزہ لے کر ہی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ افغانستان میں متفقہ حکومت کی تشکیل اور اسے قانونی و آئینی طور پر اقتدار منتقل کرنے کے معاملہ پر افغانستان کے مختلف گروپوں کی قیادتوں نے طویل نشست میں باہم مشاورت بھی کی اور اس دوران بالخصوص بھارت کی جانب سے طالبان کے اقتدار کی راہ میں روڑے اٹکانے کی سازشیں بھی کی گئیں۔ وادی پنجشیر میں شمالی اتحاد کے احمد مسعود کے ذریعے طالبان کے ایک گروپ کو طالبان تنظیم کے مدمقابل لانے اور افغانستان میں انتشار پھیلانے کی سازش بھی کی گئی اور امریکہ نے افغانستان سے جاتے جاتے ڈرون حملے کر کے اور اس سے قبل کابل ائر پورٹ کے باہر اپنی پروردہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے ذریعے خودکش دھماکے کرا کے افغانستان میں طالبان انقلاب کے ذریعے ہموار ہوتی امن و استحکام کی فضا کو خراب کرنے اوردوبارہ بدامنی کے دروازے کھولنے کی کوشش کی مگر بدلے ہوئے طالبان نے سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا اور اب تک عالمی برادری کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند طالبان فہم و تدبر سے افغانستان کو بدامنی کی جانب واپس دھکیلنے کی سازشیں ناکام بنا رہے ہیں اِسی سلسلے کی ایک کڑی وادیئ پنج شیر میں بھی غلبہ حاصل کر کے اپنے مخالفین اور عالمی طاقتوں کی توقعات کے برعکس افغانستان میں اپنی عبوری حکومت تشکیل دے دی جو خالصتاً طالبان کی امارت ِاسلامی ہے۔ شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ طالبان حکومت افغانستان میں امارت اسلامی کی ترویج کرے گی۔ اس طرح یہ شریعت پر عمل پیرا خالص اسلامی حکومت ہو گی جسے طالبان کی ماضی کا تسلسل قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا‘ اس حوالے سے طالبان کے امیر ملّا ہیبت اللہ نے اپنا پہلا پیغام بھی یہی دیا ہے کہ افغانستان کی نئی کابینہ اسلامی اصولوں اور شرعی قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے گی۔ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ افغانستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے احیا کا آغاز ہو چکا ہے جو دین اسلام کو دبانے اور مسلمانوں پر ہر قسم کی دہشت گردی کا ملبہ ڈال کر انہیں راندہئ درگاہ بنانے کی خواہشمندالحادی قوتوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے۔ طالبان کی عبوری حکومت کو پاکستان سمیت اگرچہ دنیا کے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا تاہم چین‘ ایران‘ ترکی اور پاکستان سمیت خطے کے بیشتر ممالک کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تو حکومت کی تشکیل سے بھی پہلے طالبان کا نرم گوشہ رہا ہے۔ طالبان حکومت کی قومی پالیسی اور بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کے ممکنہ اقدامات واضح ہو چکے ہیں‘ جو افغانستان کے ساتھ علاقائی امن و استحکام کی جانب پیش رفت کا عندیہ بھی دے رہے ہیں جبکہ پاکستان کیلئے افغانستان کی جانب سے عملاً ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس افغانستان کے سابق سربراہان حامد کرزئی اور اشرف غنی ہمیشہ پاکستان دشمنی پر مبنی اقدامات اٹھاتے اور اس کے ساتھ بھارتی لب و لہجہ میں بات کرتے رہے ہیں۔ ان سابق افغان حکمرانوں کی معاونت سے ہی بھارت کو افغان سرزمین پاکستان میں دہشت کیلئے استعمال کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ اب بھارت کیلئے یہ سہولت عملاً ختم ہو چکی ہے اس لئے اب پاکستان میں بھی مکمل امن و استحکام کوئی زیادہ دور کی بات نہیں رہی۔ اسی تناظر میں ملکی سلامتی کے تقاضوں اور بہترین قومی مفادات کو سامنے رکھ کر افغانستان کے ساتھ خیرسگالی کے برادرانہ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی وضع کرتے ہوئے پاکستان کو افغانستان کی طالبان حکومت تسلیم کرنے میں پہل کرنی چاہئے۔